حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اکثروبیشتر سرائیکی قوم پرست جماعتوں کے قائدین کو آڑے ہاتھوں لیتا ہوں وہ بھی صبروتحمل کے ساتھ برداشت کرتے ہیں اور کڑوی کسیلی سن بھی لیتے ہیں لیکن کیا ہم سب کو ٹھنڈے دل سے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وسیب کے لوگوں کی بڑی اکثریت آج بھی وفاق پرست پارٹیوں یا پھر پیروں، سرداروں اور جاگیرداروں کے ساتھ ہی کھڑی ہے۔
یقیناً اس کی ایک وجہ تو یہ ہوئی کہ سرائیکی قوم پرست اتنے منظم و مضبوط نہیں کہ سرکاری دفاتر، تھانوں اور بندی خانوں میں ان کی سنی جاتی ہو مقابلتاً وفاق پرست سیاسی جماعتوں کے ساتھ کھڑے پیر، میر، مخدوم، سردار اور جاگیردار روایتی سیاست کرتے ہیں یعنی تھانے کچہری کی سیاست، لوگ انہیں ووٹ بھی اسی لئے دیتے ہیں کہ گلی بنوادیں گے، سڑک بن جائے گی، بجلی اور سوئی گیس کے میٹر لگ جائیں گے۔
تھانے کچہری میں سفارش کردیں، تبادلہ کروادیں گے۔ ممکن ہوا تو درجہ چہارم کی ہی سہی نوکری لے دیں گے؟
ہمارے چار اور کی مروجہ سیاست تو یہی ہے۔
انتخابی سیاست خاصی مہنگی ہے قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے انتخابی اخراجات ایک عام سفید پوش سیاسی کارکن یا قوم پرست کہاں سے لائے۔
پھر یہ بھی اہم بات ہے کہ قومی تحریک طبقاتی تحریک نہیں ہوتی۔ اسی طرح صوبہ کے قیام کی تحریک بھی نسلی نہیں وسیبی تحریک ہے مگر اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارے مزاج اور نظام دونوں میں اشرافیہ کے لئے جو عقیدت اور مقام موجود ہے وہ عام رائے دہندہ کواپنے علاقے کے بااثر شخص سے جوڑ کر رکھتا ہے۔
ایک چین ہے جس کا پہلا سرا مقامی بااثر شخص ہے آخری سرے پر ایم پی اے ایم این اے کا خاندان یا ذات شریف ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک وسیب کا عام شہری اپنے عصری شعور کے ساتھ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ نہیں جڑتا، صوبہ کی تحریک میں ہر شخص انفرادی حصہ نہیں ڈالتا عوامی تحریک نہیں بن سکتی۔
کیا ستم ہے کہ سوشل میڈیا کے انفرادی اکاونٹس ہوں یا گروپ ان میں تو ایسا لگتا ہے کہ (اور یہ 20سال سے لگ رہا ہے) صوبہ لاہور سے چل پڑا ہے اب راستہ میں ہے۔ لوگ بھی صبر سے بیٹھے ہیں جب صوبہ آئے گا تو آگے بڑھ کر استقبال کرلیں گے۔ پرتاک انداز میں گلے ملیں گے اور پھر بہاراں ہی بہاراں ہوں گی۔
معاف کیجئے گا صوبہ نہ تو لاہور سے روانہ ہواہے اور نہ لاہور والوں کا ایسا کوئی پروگرام ہے کہ وہ سرائیکی وسیب کو صوبائی شناخت دیں بلکہ انہوں نے جو جعلی سا سیکرٹریٹ دیا تھا اس کی بھی روح نکال لی ہے۔ یہاں کسی کو پروا نہیں۔
سچ کہوں پروا ان لوگوں کو کرنی چاہیے جو محرومیوں کا شکار ہیں۔ اگر محرومیاں نہیں ہیں سب اچھا ہے، حقوق مل رہے ہیں، ہر طرف ہریالی ہی ہے تو پھر لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وفود کی صورت میں قوم پرست جماعتوں کے ذمہ داروں کو ملیں اور انہیں کہیں کہ ہم اسی حال میں خوش ہیں آپ لوگ بھی کسی وفاقی جماعت میں سیاست کریں کیوں وقت برباد کررہے ہیں۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ صوبہ تو دور کی بات، سرائیکی وسیب کے مخالف تو ہمیں قوم تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
ایسے میں قومی شناخت کو کیسے تسلیم کروایا جائے گا؟ اس سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔
وفاقی جماعتیں دوسرے صوبوں اور علاقوں میں بھی قوم پرستوں کے مقابلہ میں بہتر سیاسی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان صوبوں اور علاقوں میں عوام قوم پرستوں کی نہ صرف بات سنتے ہیں بلکہ اپنے قومی شعور اور شناخت کے تحفظ کے لئے ان کے ساتھ بھی کھڑے بھی ہوتے ہیں ۔
یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے، فیس بک پر قوم پرستی اور صوبہ کے لئے زمین آسمان ایک کردینے والے کسی سیاسی اجتماع یا مظاہرے میں شرکت نہیں کرتے۔ عام آدمی تو دور کی بات ہے۔
چند سرپھرے آپ کو ہر شہر اور قصبے میں مل جائیں گے جو قومی شناخت اور صوبے کے قیام کی جدوجہد میں برسوں سے مصروف ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ سرپھرے جن کی آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لئے جدوجہد کررہے ہیں انہیں پروا ہی نہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے ہر خاص و عام کو اپنے آج اور اگلی نسلوں کے لئے میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔
تحریک انصاف کو صوبے کے لئے ووٹ دینے والے اب کریں اپنے ارکان اسمبلی کا محاسبہ اور سوال کریں وہ صوبہ کہاں ہے جس کا وعدہ کیا تھا؟
نون لیگ تو خیر سرائیکی صوبے کی ازلی دشمن ہے پیپلزپارٹی جو کرسکتی تھی کرچکی۔
کوئی بھی صوبہ پلیٹ میں رکھ کر نہیں دے گا اس کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ جدوجہد کی صورت یہی ہے کہ ہر شخص آوازاٹھائے۔ ناگوار نہ گزرے تو عرض کردوں، ووٹ بھلے اپنے پیروں، مخدوموں، سردار اور جاگیرداروں کو دیں، صوبہ کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کی جدوجہد میں ان کا ساتھ تو دیں۔
کبھی ٹھنڈے دل سے سوچیں اگر یہ چند آوازیں بھی نہ ہوں تو آپ کی بات کون کرے گا؟
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر