عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسے ملک میں جہاں زیادہ تر لوگوں کا چلنا پھرنا، باتیں کرنا اور سونا بالی ووڈ سے پہچانا جاتا ہو وہاں یہ بات کتنی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک خاص مذہب سے سکرین پہ کرداروں کی عکاسی ہلکی سی ملفوف ہوتی ہے۔ ایک ایسی انڈسٹری میں جہاں سینکڑوں فلمیں ہر سال ریلیز ہوتی ہوں، ان میں سے چند ایک ہی ایسی ہوتی ہیں جن میں ایمانداری سے ، ڈھنگ کے ساتھ تحقیق سے “مسلم بیانیہ” کو جگہ ملتی ہے۔ باقی سب فلموں میں تو “نیشنل ازم” کے سلینڈریکل عدسوں کے زریعے ان کرداروں کو مضحکہ خیز حد تک سیاہ اور سفید (شاذو نادر) بناکر پیش کیا جانا جاری رہتا ہے۔”
میں ہندوستانی فلم ساز اور اداکارہ شازیہ اقبال کے فیچر “ہندی سینما میں مسلمان بیانیہ” کے شروع کا یہ پیراگراف پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں خیال آیا: کیا پاکستانی سینما فلموں نے کبھی “ہندؤ بیانیہ” ” سکھ بیانیہ”، “پارسی بیانیہ” ،”مسیحی بیانیہ” ، “احمدی بیانیہ” اور تو اور “ملامتی مسلم صوفی بیانیہ”،”شیعہ مسلم بیانیہ” کو سرکاری مسلم نیشنلزم اور پاکستانیت سے ہٹ کر ڈھنگ سے، ایمانداری سے تحقیق کے ساتھ کرداروں کے زریعے پیش کیا؟ سنیما فلمیں تو دور کی بات ہم تو اس موضوع پہ لکھی کتابوں میں ڈھنگ سے تحقیق کا کام سرانجام نہ دے سکے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں تو خود “مسلم بیانیہ” کے نام پہ تنگ نظر سلفی اور دیوبندی فرقوں کی سب سے انتہا پسند لائن کو مسلط کرنےکی کوشش کی گئی۔
ہندی سنیما تو اپنی سو سالہ تاریخ میں شازیہ اقبال کے بقول چند درجن ایسی شاندار فلموں کو بطور مثال کے پیش کرنے کے قابل ہے جس میں مسلماانوں کے رہن سہن ، ان کے دکھوں، ان کے سکھ اور ان کی جدوجہد کی عکاسی ایمانداری سے ہوئی ہے اور ایسی 20 فلموں کی نشاندہی شازیہ اقبال نشاندہی کرتی بھی ہے۔ لیکن کیا ایسی تین سے چار فلموں کی نشان دہی پاکستانی اردو سینما فلموں کی تاریخ میں بھی کی جاسکتی ہے؟
شاذیہ اقبال نے ہندی سینما میں معروضیت کو چھونے والی مسلم بیانیہ کی عکاس بیس ہندی فلموں پہ اپنا تبصرہ پیش کیا ہے اور میں اپنے کالم کو طوالت سے بچانے کے لیے ان میں سے چند ایک کا اردو ترجمہ اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ۔ یہ تبصرہ پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں کئی سوال پیدا ہوئے۔ سب سے پہلا سوال میرے ذہن میں یہ ابھرا کہ جب ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو ملک بنے تو پاکستان میں جو مذہبی اقلیت برادریاں رہ گئی تھیں ان میں خاص طور پر ہندؤ برادری مغربی اور مشرقی پاکستان میں بڑی تعداد میں تھیں ان کے ساتھ کیا ہوا؟ نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ کے نام سے ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ میرے ذہن میں فوری طور پہ تو زاہد چودھری کی کتاب ” پاکستان کی سیاسی تاریخ” کی بارھویں جلد ” پاکستان میں جمہوریت کی راہ میں روکاوٹ ،ملائیت ، فرقہ پرستی کے نعرے” آتی ہے جس میں ہمیں اخبارات اور دیگر آرکائیوز کی مدد سے پتا چلتا ہے کہ کیسے یہاں ملاں ، جاگیردار، گماشتہ سرمایہ دار، یوپی-سی پی اردو اسپیکنگ اور پنجابی جاگیردار اشرافیہ، وردی بے وردی بابو شاہی اپنےاپنے مفادات کے تحت نئی ریاست کی آئیڈیالوجی کی تعریفات بیان کررہے تھے اور انھوں نے کیسے 1949ء میں قرارداد مقاصد کو پاس کروایا اور پہلے مرحلے پہ تمام غیر مسلم مذہبی اقلیتوں کو ہمارے سماج کا دوسرے درجے کا شہری بنادیا۔ ہمارے ہاں کیا ایس ایم سہتو جیسا کوئی ہدایت کار نہیں تھا جو “گرم ہوا” جیسی فلم بناتا؟ اس سوال کے ساتھ ہی میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ کیا تقسیم ہند کے بعد “آزادی کی اپنی اپنی تعریف کرنے کا جو چلن ہندوستان میں چلا تھا تو کیا پاکستان میں بھی ایسا چلن ہوا تھا؟ اس کا جواب ہاں میں ملتا ہے اور ہمیں خود تقسیم پہ سعادت حسن منٹو کا انتہائی شاندار افسانہ”ٹوبہ ٹیک سنگھ” ملتا ہے۔ یہ افسانہ بعد ازاں تھیڑ پلے اور ٹیلی ڈرامے کی شکل میں تو سامنے آتا ہے لیکن اس پہ کوئی فلم نہیں بنتی اور یہ کہانی تقسیم کے وقت کی ہے ناکہ اس کے بعد ۔ ہمارے پاس “گرم ہوا” جیسی فلم بنانے کا مواد آزادی/ تقسیم کے فوری بعد ہی دستیاب ہوگیا تھا، جیسے ساحر لدھیانوی کے ساتھ جو کچھ ہوا جب اس نے پاکستان کے شہر لاہور میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا تو گوالمنڈی کے بدمعاشوں کے زریعے سے اتنا ڈرایا گیا کہ وہ یہاں سے جانے پہ مجبورہوگیا۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی یہاں پوری ریاستی مشینری اور حکمران مسلم لیگ کے اشراف مذہبی اعتبار سے تکثریت اور کمپوزٹ کلچر کے ہی دشمن ہوگئے تھے اور ایک وقت وہ آیا کہ پاکستان میں جنم لینے والی اکثریت کو یہ بھی پتا نہ تھا کہ ہندؤ، سکھ، پارسی ہمارے ہی جیسے لوگ تھے۔ یہ شناختیں غیر انسانی سٹیریو ٹائپس میں بدل گئیں۔ ہندؤں کے فوری بعد جس کمیونٹی پہ حملہ ہوا وہ احمدیہ کمیونٹی تھی، اس کے بعد مسیحیوں کی باری آئی اور اس کے متوازی یہاں وہاں مسلمان شیعہ برادری کے بارے میں بھی مسخ شدہ بیانیہ آنا شروع ہوگیا اور پھر اسّی کی دہائی سے لیکر 21ویں صدی آنے تک ہم نے انتہائی منظم اور آہستہ رو نسل کشی پہ مبنی بیانیہ ہمارے مین سٹریم میں شامل ہوتے دیکھا اور ان سب برادریوں کے معروضی بیانیوں کو پاکستانی سینما فلموں، ٹیلی فلموں اور ڈراموں میں کس قدر پیش کیا گیا گیا؟ اس سوال کا جواب ہم سب کو معلوم ہے نفی میں ہے۔ یہ سارے سوال میں نے اس لیے اٹھائے کہ جب میں پاکستان کی سینما انڈسٹری کی تاریخ کا ارتقا دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہم مذہبی اقلیتوں کی شناخت کی بے گانگی کا سوال تو ایک طرف رکھیں خود مسلم شناخت کی بے گانگی کی عکاسی معروضی بنیادوں پہ نہ ہوسکی اورہم اپنے ہاں جب مذہبی اقلیتوں کے بیانیوں کو دیانت داری سے پیش نہ کرپائے تو ہندی سینما کی تاریخ میں مسلم بیانیہ کے سٹیریو ٹائپ کرداروں کی نظر ہوجانے کا شکوہ کیسے کرسکتے ہیں ۔ ہندوستان میں کشمیر کے موضوع پہ کم از کم “حیدر ” جیسی فلمیں تو ریکارڈ پہ ہیں ، ہمارے پاس تو وہ بھی نہیں ہے۔
گرم ہوا
سال:1973
ڈائریکٹر: ایس ایم سہتو
لکھاری: کیفی اعظمی،شمع زیدی(عصمت چغتائی کی کہانی سے ماخوذ)
ستارے: بلراج ساہنی، گیتا سدھارتھ، اے کے ہنگل، جلال آغا، شوکت اعظمی، فاروق شیخ
“آزادی ملی ہے اس کا سب اپنے اپنے ڈھنگ سے مطلب نکال رہے ہیں”
سلیم مرزا(بلراج ساہنی) جل بھن کر ردعمل دیتے ہیں جب ایک تانگے والا ان سے چارگنا زیادہ بھاڑا مانگتا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ مرزا کو دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر انہیں یہ بھاڑا ٹھیک نہیں لگتا تو وہ پاکستان جاسکتے ہیں۔ مرزا کا جھنجھلاہٹ بھرا جواب فلم کے تھیم کو بیان کرتا ہے: ہر شخص آزادی کا اپنا ہی مطلب نکال رہا ہے اور اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
نئے نئے آزاد ہوئے ہندوستان میں ایم ایس سہتو کی فلم ایک ایسے مسلمان خاندان کی اپنے آپ کو باقی رکھنے کی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے جس نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا ہندی سینما میں جہاں ایک مسلمان خاندان کی عکاسی حقیقی طور پہ ہوئی تھی نہ اس میں محض کسی مسلمان کا علامتی سا کردار رکھا گیا تھا۔ یہ فلم دو عالمی شہرت یافتہ فلم ميلوں میں انعام کے لیے نامزد ہوئی لیکن ہندوستانی سنسر بورڈ نے مسترد کردیا اور 11 ماہ یہ فلم ہندوستانی سینما میں نمائش کے لیے پیش ہونے کا انتظار کرتی رہی۔ پھراندراگاندھی وزیراعظم ہندوستان نے سی بی ایف سی کو اسے پاس کرنے کے لیے زور دیا تو یہ فلم ریلیز ہوسکی۔
Watch On: YouTube
دھرم پتر
سال: 1961
ہدائت کار: یش چوپڑا
لکھاری: اختر الایمان ( اچاریہ چترا سین شاستری کے ناول کی ڈرامائی شکل)
ستارے: مالا سنہا، ششی کپور، رحمان، من موہن کرشنا، نروپا رائے
سال 1947ء ہوتا ہے۔ ایک قوم پرست ہندؤ(ششی کپور) تقسیم کے بعد کے دنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرا ہوتا ہے ، اس پہ ایک دن انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تو خود ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا تھا- زمان(وقت) کی قید سے آزاد یہ فلم لکھاری اور ڈائرکٹر کی مضبوط سیکولر آواز کی حامل ہے اور چند ایسے مناظر ہیں جو مذہب، ثقافت اور شناخت کے گرد لڑائی دکھاتے ہیں اور اس نے مجھے ]یرت سے گونگا کردیا کیونکہ ایسا بیمار سیاسی ڈسکورس 2021 میں بھی بڑھایا جارہا ہے-
“دھرم کیا آدمی سے بڑا ہوتا ہے؟” ایک ہندؤ ماں کہتی ہے جس نے ایک مسلمان بچہ گود لے لیا ہوتا تھا۔ یہی اس فلم کا مقصد ہے۔ انسان جو دھرم کے غلام ہونے جیسا رویہ برتتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ فلم ہندی فلموں کے اس سنہرے دور میں بنائی گئی جب فرقہ وارانہ ہم آہنگی پہ مبنی فلموں کو سراہا جاتا تھا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو اب کہیں گم ہوگئی ہے۔ ششی کپور کو صد تحسین کہ انہوں نے اپنی نوجوانی کے دنوں میں اپنی پہلی فلم میں اتنا پیچیدہ کردار اچھے سے نبھایا۔
Watch On: Amazon Prime, YouTube
ممو
سال:1994
ہدایت کار: شیام بینگل
لکھاری: خالد محمد، شمع زیدی، جاوید صدیقی
ستارے: فریدہ جلال، سریکھا سکری، امیت پھالکے، رجیت کپور
یہ تین حصوں میں بنی فلم کا پہلا حصّہ ہے خالد محمد نے ایک ایسی آتش فشاں عورت سے متاثر ہوکر لکھی تھی جو عورت ان کی سب سے بڑی ممانی تھیں اور ان کا نام ممو بی بی تھا اور زبردستی پاکستان بھیج دی گئی تھیں۔ ان کی اکثر فلموں میں مسلمان اقلیتی شناخت پہ مبنی جدوجہد تصادم کا بنیادی نکتہ ہیں اور مجھےفلم ممو پہلی فلم کے طور پہ یاد آتی ہے جہاں میں سوچتی ہوں کہ میں نے رضو کے کردار میں تفصیل سے اپنے آپ کو دیکھا اورر سنا ہے۔(رضو کا کردار امیت پھالکے نے شاندار انداز میں ادا کیا ہے۔۔۔۔ممو وہ فلم ہے جو میرے بچپن کو بیان کرتی ہے اور رضوان اور ممو میں بہت کچھ ایسا ہے جو آج بھی مجھ میں زندہ ہے۔
میں گلزار کے لکھے گیت “یہ فاصلے تیری گلیوں کے” جسے ون راج بھاٹیہ اور جگجیت سنگھ نے گایا ہے کو سننے کے دوران اپنے جذبات پہ قابو نہيں رکھ سکتی۔
Watch On: Mubi, Airtel XStream
نسیم
سال: 1995
ہدایت کار: سعید اختر مرزا
لکھاری: سعید اختر مرزا، اشوک مشرا
ستارے: کیفی اعظمی، مایوری کانگو، کلبھوشن کھربندا ، سریکھا سکری ، سلیم شاہ، کے کے مینن
ایک سین میں جہاں ایک مسلمان آدمی اپنی برادری کے خلاف بڑھتی ہوئی دشمنی والے حالات کو ختم کرنے کی جدوجہد کررہا ہے اور جن حالات نے بابری مسجد کے انہدام کو جنم دیا اس دوران اپنی بقا کو لاحق خطرات سے دوچار ہے تو وہ بستر مرگ پہ پڑے اپنے باپ سے کہتا ہے،”ابّا!، تم تقسیم کے دنوں مین پاکستان کیوں نہ چلے گئے؟” تو باپ(کیفی اعظمی) سکون سے جواب دیا ہے،” کیا تمہیں آکرہ میں اپنے گھر کے باہر لگا درخت یاد ہے؟ تمہاری ماں اور مجھے اس درخت سے بہت لگاؤ تھا”
اس سین سے وطن پرستی / دیش بھگتی مجھے پتا چلتی ہے اور سمجھ بھی آتی ہے۔ فلم ایک درخت کو اکھڑ جانے ، شناخت کی بیگانگی اور تعلق کے کھوجانے کے احساس کے استعارے کے طور پر پیش کرتی ہے جس سے آج اکثر مسلمان دوچار ہیں۔
Watch On: Mubi
سلیم لنگڑے پہ مت رو
سال: 1989
ہدایت کار: سعید اختر مرزا
لکھاری: سعید اختر مرزا، ہردے لانی
ستارے : پون ملہوترا، نیلما اعظم، سریکھا سکری، وکرم گوکھلے، مکرانڈ دیش پانڈے، اشتوش گواریکر
سعید اختر مرزا کی عبقریت پہ الگ سے ایک مضمون لکھنے کی ضرورت ہے، اس جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ مضبوط ترین ، سب سے مستند مسلمان آواز ہیں وہ ہندوستانی سینما کی تاریخ میں ، ان کی کہانیاں تیز نگاہی سے مسلمانوں پہ جبر دکھاتی ہیں اور مسلمان برادری کے اندر قدامت پرستی و پسماندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ وہ ان کی بیگانگی کو بھی دکھاتے ہیں۔
مراد سے پہلے جس نے “گلی بوائے /گلی کا لڑکا” میں “اپنا ٹائم آئے گا” کو مقبول بنایا ، سلیم سے سعید مرزا نے کہلوایا تھا،” اپنا ٹائم بھی آئے گا رے” حاشیوں پہ اعتماد کےساتھ ٹپوری زندگیاں گزارنے والے اور سماج اسے یہ بات دوہرانے سے روکنے میں ناکام رہ گئے تھے۔ مرزا کہتے ہیں کہ برابری کے مواقع نہ ملنے ، تعلیم، نوکری کے فقدان اور غریبی تشدد کو جنم دیتی ہے۔ وہ ایسے تشدد کو حساسیت اور ہمدردی سے دیکھتے ہیں۔ سلیم اور نسیم جیسے کرداروں کے بغیر ہندوستان میں کوئی مسلمان بیانیہ نہیں ہوسکتا ہے۔
Watch On: Mubi
جنون
سال:1978
ہدایت کار: شیام بینگل
لکھاری: شیام بینگل، عصمت چغتائی، ستیہ دیو ڈوبے ( رسکن بانڈ کے ناول سے ماخوذ “کبوتروں کی ایک آڑان”)
ستارے: ششی کپور، نفیسہ علی ، شبانہ اعظمی، نصیرالدین شاہ، جینفر کیندال، عصمت چغتائی
ششی کپور کا جاوید خان ایک پٹھان سپاہی ہے جو ایک فرنگن روتھ (نفیسہ علی) کے پیار میں بری طرح سے گرفتار ہے۔ 1857ء کی بغاوت کے پس منظر میں بنی شیام بینگل کی یہ شاہکار فلم انتہائی دردناک پیار کی کہانی ہے جو محبت میں ناکام اور اس کے ہاتھوں دکھ اٹھانے والے آدمی کی جدوجہد کو دکھاتی ہے جو اپنے اس جنون سے جان چھڑا نہیں پاتا۔
ایک انتہائی مہارت سے گوریو گراف کیا گیا سین جہاں امن کے استعارے کے طور پہ اڑائے گئے کبوتروں کو سرفراز(نصیر الدین شاہ) مار ڈالتا ہس ، تو وہ چلاتا ہے “ہم دلّی ہارگئیں” اور آپ کو جاوید کی محبت کے تابوت میں آخری کیل کے ٹھونکے جانے کے ایک ایک انچ کو محسوس کرتے ہیں۔ میرے لیے جاویدہور روتھ اب بھی ایسی ہی متوازی دنیا میں رہتے ہیں۔ کچھ کردار ہمیں کبھی چھوڑ کر نہیں جاتے
.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر