نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘‘‘||حیدر جاوید سید

کون سی جماعت جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے اور کون سی علاقائی۔ جب تک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہ ہوں اصل صورتحال سامنے نہیں آسکتی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدہ کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کو پیپلزپارٹی کے 22ارکان (کے پی کے کے ایک آزاد رکن دلاور آفریدی پیپلزپارٹی میں شامل ہوچکے تھے) کے علاوہ اے این پی کے 2، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 1، بی این پی عوامی کے 1، بلوچستان سے آزاد رکن بابر اور آزاد پارلیمانی گروپ کے (یہ گروپ فاٹا کے ارکان پر مشتمل ہے) 3ارکان نے ووٹ دیئے (درخواست نامزدگی پر دستخط کرکے دیئے اور جماعت اسلامی کے ایک رکن نے بھی گیلانی کی حمایت کی۔ بلوچستان سے آزاد سینیٹر بابر اور فاٹا کے 3 آزاد سینیٹر بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔
مسلم لیگ کے اپنے 17 ارکان )18ویں رکن اسحق ڈار کی رکنیت معطل ہے) کے علاوہ اس کی حامی جماعتوں نیشنل پارٹی بزنجو کے 2رکن، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن اور جے یو آئی ف کے 5ارکان ہیں۔ یہ کل 25ارکان بنتے ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری کے بعد ذرائع ابلاغ نے سینیٹ کے اعلامیہ کی بنیاد پر خبر دی کہ نون کے 21ارکان کے مقابلہ میں یوسف رضا گیلانی کے پاس 31 ارکان کی حمایت موجود تھی تب یہ سوال اٹھا کہ کیا جے یو آئی ف کے 5ارکان نے نون لیگ کے اعظم تارڑ کی تقرری کے لئے دستخط نہیں کئے۔
دو دن کی خاموشی کے بعد ہفتہ کی دوپہر جے یو آئی (ف) نے اپنے ارکان کے دستخطوں والا ایک کاغذ جاری کیا کہ یہ ارکان بھی اعظم تارڑ کی تائید میں دستخط کرچکے تھے۔ اب کہا جارہا ہے کہ جے یو آئی ف کے ارکان کے دستخطوں والا تائیدی لیٹر مسنگ تھا جوکہ مل گیا ہے۔
اس مسنگ کا ذمہ دار کون ہے؟
اب آتے ہیں پی پی پی کے امیدوار کی حمایت میں جمع کروائے گئے تائیدی دستخطوں والے کاغذات پر۔ ان پر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے کسی رکن کے دستخط نہیں بلوچستان سے پی پی پی کی اے این پی کے 2ارکان کے علاوہ بی این پی مینگل کے 1 اور بی این پی عوامی کے 1، سینیٹر اور 1 آزاد رکن بابر نے تائید کی۔ خیبر پختونخوا سے 2018ء میں آزاد جیتنے والے دلاور آفریدی دو ہفتے قبل پی پی پی میں شامل ہوچکے تھے۔ فاٹا کے ہی 3ارکان کے آزاد گروپ نے گیلانی کی حمایت کی اسی طرح جماعت اسلامی کے ایک رکن نے۔
پچھلے چار دنوں سے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ اینڈ کمپنی، جاتی امرا نیوز، محبان سول سپر میسی اینکرز اور خود نون لیگ کے سوشل میڈیا مجاہدین نون لیگ کی روایات کے مطابق جھوٹ پہ جھوٹ بولتے آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
شریف خاندان کا بغض اور نفرت کھٹ سے باہر آیا، جو ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک بار پھر 1988ء سے 1999ء کے درمیان سالوں سیاست کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔
الحمدللہ پہل محترمہ مریم نواز اور جاتی امرا کے نفس ناطقہ رانا ثناء اللہ نے کی۔ اب چل سو چل والا معاملہ ہے۔ بھٹو صاحب سیاست میں کب آئے، کب ایوب کے ساتھ شامل ہوئے، کب الگ اورپھر ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے پارٹی بنائی یہ داستان جستہ جستہ لکھتا رہتا ہوں۔ ہمارے دوستوں کا حافظہ کمزور ہے اورکچھ اللہ کے فضل سے بھٹو خاندان کی نفرت کے رزق پر پلے جوان اور بوڑھے ہوئے ان سے شکوہ بنتا ہی نہیں۔
جناب نوازشریف کب اور کیسے سیاست میں تشریف لائے یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
مجھ ایسے طالب علم کے نزدیک ماضی آگاہی کے لیئے ہوتا ہے اور حال کی رائے قابل غور ۔
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ہمیشہ کہتا لکھتا ہوں کہ جو سیاستدان بازاری زبان استعمال کرتے ہیں ان کے محب بیسوائوں کو بھی مات دے دیتے ہیں یہ دونوں شعوری یا غیرشعوری طور پر’’ آستانہ عالیہ آبپارہ شریف‘‘ کے مشن میں حصہ ڈالتے ہیں۔
خیر چھوڑیں ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ پی ڈی ایم میں کہیں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اپوزیشن لیڈر ن لیگ کا ہوگا۔ پھر نون لیگ نے سینیٹ کے بڑے پارلیمانی گروپ پیپلزپارٹی کے ارکان کے تائیدی دستخطوں کے بغیر اعظم تارڑ کی تقرری کے لئے درخواست کیوں جمع کروائی؟
کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ 21ارکان کے دستخط والی درخواست پر کارروائی نہیں ہوگی اور سینیٹ قوانین کے مطابق سنگل لارجسٹ پارٹی ہی اپنے تائیدی ارکان کی حمایت سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرتی ہے؟
سینیٹ سیکرٹری کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ کیا نون لیگ کی درخواست کے ساتھ 21 ارکان کے دستخط تھے یا 26 کے؟ جے یو آئی ف کے ارکان کے دستخط والا لیٹر گم کیسے ہوا۔ گم ہوا تھا یا بعد میں عملے کی ملی بھگت سے ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا؟
یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ میں اپنی اس خبر پر قائم ہوں کہ
’’نون لیگ کی درخواست پر 21 افراد کے دستخط تھے اور جے یو آئی کے 5ارکان کے دستخط نہیں تھے‘‘۔
اور یہ بھی کہ سینیٹ سیکرٹری کا آفس کاغذات کی ایک پرت کے گم یا بعد میں شامل کرنے میں شامل ہے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ نون لیگ بھی پیپلزپارٹی کی طرح علاقائی جماعت ہی ہے پھر طعنہ بازی کیسی؟
2013ء میں نون لیگ نے پاشا، کیانی اورافتخار چودھری کے ساتھ مل کر پی پی پی کی منجی ٹھوکی تھی، 2018ء میں عمران خان نے ’’فرشتوں‘‘ کے ساتھ مل کر نون لیگ کی منجی ٹھوک دی۔
کون سی جماعت جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے اور کون سی علاقائی۔ جب تک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہ ہوں اصل صورتحال سامنے نہیں آسکتی۔
البتہ محترمہ مریم نواز کی یہ بات درست ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے نون لیگ اور جے یو آئی ہی کافی ہیں (دیگر جماعتوں والا جملہ بعد میں شامل کروایا گیا) ان کا دعویٰ درست ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ وہ یہ بھی بتائیں گی کہ پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال ہونے کے فیصلے کے پیچھے کیا معاملہ ہے اور کیا یہ ویسا معاملہ تو نہیں جیسا پنجاب میں سینیٹ کے ارکان کو بلامقابلہ کامیاب کروانے کا فارمولا تھا۔
تحریر نویس کو کامل یقین ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف رکھنے والی مریم نواز جلد ہی ایک پریس کانفرنس کرکے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ’’بااختیار و باجلال و باوقار‘‘ نمائندے کی لاہور والی سرکاری قیام گاہ پر منعقد ہوئے اس مشاورتی اجلاس بارے بھی قوم اور اپنے انقلابی ساتھیوں کو اعتماد میں لیں گی جنہوں نے ڈیل ڈیل کی تکرار سے آسمان سر پر اٹھارکھا ہے۔
البتہ ان کی یہ بات درست ہے کہ جوڈیل کرتے ہیں وہ ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author