دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امر جلیل کو این آر او نہیں ملے گا||عامر حسینی

مثنوی مولانا روم کے دفتر چہارم میں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے کلمات "سبحانی ما اعظم شانی" اور دیگر کلمات ہیں یہ مثنوی مولانا روم ایسی درجنوں حکایات سے بھری پڑی ہے،

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

مثنوی مولانا روم کے دفتر چہارم میں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے کلمات "سبحانی ما اعظم شانی” اور دیگر کلمات ہیں یہ مثنوی مولانا روم ایسی درجنوں حکایات سے بھری پڑی ہے، مولانا روم کی اس مثنوی کو علامہ اقبال قرآن در زبان پہلوی کہہ چُکے اور خود اقبال کے ہاں بھی اس طرح کے بہت سے اشعار میں لکھی حکایات ہیں "قصہ آدم کو کرگیا رنگیں کس کا لہو”…. اور” دامنِ یزداں چاک یا اپنا گریباں چاک”…….
اب لوگ کہتے ہیں کہ صوفیا کی شطیحات اور ہیں اور امر جلیل کا افسانہ اُس رعایت کا مستحق نہیں جس کے مستحق وتایو فقیر، سچل سرمست، یہاں تک کہ سائیں اختر لہوری تھے، مطلب امر جلیل کو رعایت نہیں ملے گی اور اُس کے افسانے کی جو تعبیر و تشریح ظاہر پرست مولوی، تکفیر پسند اور بلاسفیمی بریگیڈ کرے گا وہی مستند ٹھہرے گی چاہے امر جلیل خود بھی یہ کہہ دے کہ اُس کی مراد وہ نہیں جو بلاسفیمی بریگیڈ لے رہا ہے-
ایک زمانے میں جب ترقی پسندو‌ں نے افسانوں کی ایک کتاب "انگارے” شایع کی تو اُن افسانوں کو کفر اور توھین مذھب قرار دے کر مولویوں نے آسمان سر پہ اٹھالیا تھا، مولوی عبدالماجد دریا آبادی اُن میں سب سے آگے تھے اُن کا بس نہیں چلتا تھا کہ انگارے لکھنے والے لکھاریوں کو زمین میں گاڑ ڈالیں ایسے میں مولوی عبدالماجد دریاآبادی کے مرشد مولوی اشرف علی تھانوی نے ایک دن اُن کو یاد دلایا کہ، مولانا! آپ کی تحریروں میں غیظ و غضب دعوت اصلاح و خیر پہ حاوی ہوتا جارہا ہے اور آپ اپنی حالت بھول گئے جب آپ نے تحلیل نفسی کی بنیاد پہ مذھب کو ہی رد کردیا تھا اور ایک کتاب بھی لکھ دی تھی، اُس زمانے میں ایک میں تھا اور ایک اقبال تھا جس نے آپ کو حکمت سے سمجھانے کی راہ اختیار کی…….. انگارے میں یا امر جلیل کے افسانے میں ویسا کچھ بھی نہیں جو دریا آبادی کی کتاب میں تھا……..
مجھے ابن تیمیہ سے لیکر مولانا مودودی تک ظاہر پرست کم از کم آج کے بلاسفیمی بریگیڈ سے زیادہ ایماندار لگتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ظاہر پرستانہ شدت اور تکفیر کا پیمانہ یکساں رکھا اگرچہ مسلم اہل علم کی اکثریت نے اُن کے خیالات کو رد کردیا تھا……
ہمارے ایک دوست نے تو امر جلیل کے باب میں اپنی پوسٹ کا دفاع انتہائی سستی جذباتیت پہ مبنی اظہار والی پوسٹ لگاکر کیا جس میں خود ہی انھوں نے اپنے آپ کو اللہ عزوجل عمانوالہ و سبحانہ کی بارگاہ میں اپنے آپ کو سرخرو کرلیا – لیکن اُن کی حمیت و غیرت اور للہیت ھو ہے وہ صرف اور صرف "امر جلیل” کے باب میں جاگی ہے…….
میں اگر علمائے دیوبند کی اُن عبارات کو یہاں پیش کردوں جن کو لیکر مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے اُن کو خدا عزوجل کے گستاخ قرار دیا اور بادی النظر میں مولوی اشرف علی تھانوی کی حفظ الایمان کی عبارت میں تو لفظ غیب کے اطلاق میں برابری کے حوالے سے جو جملے ہیں اُن کو لکھنے کی تاب نہیں ہے لیکن ساری کی ساری دیوبند دانش اُن دو جملوں کی آج تک تعبیر و تاویل کرتی آتی ہے اور ایسے ہی مولوی اسماعیل دہلوی اور رشید احمد گنگوہی کا امکان کذب….. یعنی اللہ جھوٹ بول سکتا ہے کہ نہیں؟ پہ موقف فاضل بریلوی اور اُن کے متبعین نے اسماعیل دہلوی کے باب میں توبہ کی خبر کے سبب اُن کی عبارت کفریہ مگر اسماعیل دہلوی الزام کفر سے بری مگر رشید احمد گنگوہی اس الزام سے نہ بچ پائے….. آج بھی فاضل بریلوی سے اتفاق کرنے والے مولویوں اور مفتیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور دوسری طرف مولانا قاسم ناناتوی بانی دارالعلوم دیوبند سمیت کئی اکابرین دیوبند کی کفریہ و گستاخی مذھب قرار دی جانے والی عبارات کی ہر دیوبندی عالم تاویل و تعبیر کرتا ہے اور وہ اُن عبارات کے ظاہر سے مترشح معانی سے ذہن کو دوسری طرف پھیرتا ہے اور تو اور جواب آن غزل کے طور پہ دیوبندی اکابرین کے دفاع میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد ٹانڈوی ثم المدنی سمیت ہزاروں دیوبندی مولویوں نے خود مولانا احمد رضا اور کئی دوسرے صوفی سُنی بریلوی علماء کی عبارات پہ گرفت کی اور اُن کی بنیاد پہ احمد رضا بریلوی کو بدعتی، شدت پسند اور اقرب الی الکفر قرار دیا….. اب بریلوی علماء ہیں وہ ان عبارات کی تاویل کرتے ہیں
یہ علماء ظاہر ہیں جن کے دیوانگی اور فرزانگی، جذب و انجذاب نہیں ہوا کرتا تو ان کی تحریروں کو اگر استثنا دیا جاتا ہے تو پھر "امر جلیل” کو یہ این آر او کیوں نہیں ملے گا؟

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

About The Author