حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے عزیز ابرار حسین اکبر کے توسط سے لاہور میں سراپا احتجاج معلمین نے ایک خط میں درپیش مسائل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے جو نکات اٹھائے ہیں ان پر محکمہ تعلیم پنجاب اور خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو ہنگامی بنیادوں پر نوٹس لینا چاہیے۔
ابرار حسین اکبر خود بھی معلم ہیں ان کی یہ بات سوفیصد درست ہے کہ ساری دنیا میں اساتذہ کرام کو زندگی کے ہر معاملے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ان کی تنخواہیں بھی دیگر شعبوں سے زیادہ ہوتی ہیں تاکہ فکر معاش سے آزاد معلمین نئی نسل کی تربیت کرسکیں۔
ہماری رائے میں اساتذہ کرام نے اپنے خط میں جن مسائل اور بالخصوص غیرمتوازن پالیسیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے جس ایک خاص مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے اسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
اپنے مطالبات کے حق میں پچھلے کچھ عرصہ سے سراپا احتجاج اساتذہ کرام نے لاہور پہنچ کر بھی احتجاج بھی کیا اور فی الوقت دھرنا دیئے ہوئے ہیں لیکن ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔
یہ سوال اہم ہے کہ محکمہ تعلیم کی سردمہری کے باعث جو اساتذہ کرام متاثر ہورہے ہیں وہ کس کے دروازہ پر فریاد کریں۔ آپ اساتذہ کرام کا مکتوب پڑھ لیجئے پھر مزید بات کرتے ہیں۔
’’2014 سے 2018 تک پنجاب بھر سے NTS کے ذریعے ایس ایس ایز،اے ای اوز،SESE اور ESR بھرتی کیے گئے۔یہ سب لوگ ضلع کی سطح پر میرٹ کی بنیاد پر این ٹی ایس پاس کر کے انٹرویو دینے کے بعد شفاف طریقے سے بھرتی ہوئے۔پنجاب اسمبلی میں دو ہزار اٹھارہ میں شہباز شریف نے اسمبلی میں ایکٹ پاس کیا کہ چار سالہ سروس کے بعد سرکاری ملازمین مستقلی کے حقدار ہونگے۔ESE bps- 14SESE bps – 15 کو اس قانون کے تحت مستقل کر دیا گیا۔جبکہ اسی قانون میں یہ شق رکھی گئی کہ SSE bps- 1اور AEO s bps-16 پبلک سروس کمیشن کا امتحان دینے کے بعد مستقلی کے اہل ہونگے۔یہ سب لوگ ریکروٹمنٹ پالیسی 2013 کے تحت بھرتی ہوئے ہیں۔اس پالیسی میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔اب اساتذہ کرام کا مطالبہ یہ ہے۔کہ وزیر اعلیٰ ایگزیکٹو آرڈر جاری کر کے یا اس قانون میں تبدیلی کر کے انہیں مستقل کیا جا سکتا ہے۔جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان اور انٹرویو دینے کے بعد وہ مستقل ہونگے۔اس سے پہلے 19 دسمبر کو اساتذہ کرام نے بنی گالا اسلام آباد میں دھرنا دیا۔جس میں راجہ بشارت وزیر قانون نے انہیں مستقلی کی یقین دھانی کرائی۔اس کے بعد حکومت اپنے معاہدے سے مکر گئی۔اساتذہ کرام کا موقف یہ ہے۔کہ 2009 ،2004 اور 2012 میں بھرتی ہونے والے اساتذہ کرام بغیر کسی امتحان کے بعد بھرتی ہوئے ہیں۔اور انہیں غیر مشروط طور پر مستقل کر دیا گیا۔اب بھی حکومت چاہے تو ٹیسٹ اور انٹرویو کے بغیر انہیں مستقل کر سکتی ہے۔اساتذہ کرام کا موقف یہ بھی ہے کہ وہ کسی قسم کی رعایت نہیں مانگ رہے۔پی پی ایس سی کی موجودہ بندر بانٹ اور کرپشن کی وجہ سے انہیں یہ خطرہ ہے کہ ان سیٹوں پر سودے بازی ہو سکتی ہے۔رابطے سے محروم اساتذہ کرام کا حق چھینا جاسکتا ہے۔ اساتذہ کرام کو پبلک سروس کمیشن پر ہرگز اعتماد نہیں‘‘
پبلک سروس کمیشن پر اساتذہ کرام کا عدم اعتماد بلاوجہ نہیں۔ ہماری دانست میں اس کی دو وجوہات ہیں
اولاً یہ کہ پچھلے چند ماہ کے دوران پبلک سروس کمیشن پنجاب کے مختلف شعبوں کے امتحانات کے حوالے سے جو سکینڈل سامنے آئے اس کی بنا پر دوردراز علاقوں میں تعینات اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ گھٹالہ پروگرام پر عمل کرنے والے کمیشن کے ملازمین ماضی کی طرح وارداتیں کریں گے
ثانیاً یہ کہ دیہی علاقوں کے مستحق اساتذہ کی جگہ ماضی کی طرح سفارشیوں کی بن آئے گی۔
مندرجہ بالا دو معاملات سے انکار ممکن نہیں۔ پنجاب سروس کمیشن کی ساکھ بہرطور خراب ہے اس کے ذمہ داران یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوجاتے کہ سکینڈل سامنے آنے پر ہم نے بلاامتیاز کارروائی کی۔
سوال یہ ہے کہ ادارہ کا اندرونی نظام اتنا کھوکھلا کیسے ہوا کہ بظاہر چند معمولی اہلکار ادارے اور امیدواروں سے دھوکہ کرتے اور مال کماتے رہے؟یہاں ہم اس امر کی طرف بھی پنجاب حکومت کو متوجہ کرنا چاہیں گے کہ دو اڑھائی ہزار سے زیادہ اساتذہ کرام پچھلے چند دنوں سے لاہور میں سیون کلب روڈ کے بالمقابل دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دیئے بیٹھے ان اساتذہ کرام سے پنجاب حکومت کے کسی ذمہ دار نے تو کیا درشنی بیانات دے کر میڈیا میں زندہ رہنے والے مشیر نے بھی ملاقات نہیں کی۔
کیا پنجاب حکومت کے بڑے چھوڑے سب درسگاہوں میں جائے بغیر زیور تعلیم سے آراستہ ہوگئے تھے؟
یقیناً ایسا نہیں ہے وہ بھی اپنے اپنے علاقوں کی درسگاہوں کے اساتذہ کرام کی محنت و تربیت کے باعث تعلیمی مراحل مکمل کرپائے ہیں اسی لئے ان کی خدمت میں مودبانہ درخواست ہے کہ سیون کلب روڈ کے بالمقابل دھرنا دے کر بیٹھے اساتذہ کرام کی بات تحمل اور تسلی سے سنیں اور دادرسی کو یقینی بنائیں تاکہ معلمین کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے۔
امید ہی کی جاسکتی ہے کہ پنجاب کے صاحبان اقتدار اساتذہ کرام کے اس اہم مسئلہ کا انسانی ہمدردی اور فروغ تعلیم سے محبت کے پیش نظر جائزہ لے کر معاملے کو حل کرائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر