سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کے وار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ حکومت کی اس ضمن میں کارکردگی صفر ہے۔ حالانکہ پہلی اور دوسری لہر کے موقع پر حکومت کی جانب سے جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تیسری لہر کے موقع پر وہ سنجیدگی اس حقیقت کے باوجود دیکھنے میں نہیں آرہی کہ یہ لہر پچھلی دونوں لہروں کی نسبت زیادہ خطرناک اور تشویشناک ہے۔ اگرچہ اس نااہلی کی ایک بڑی وجہ وزیراعظم عمران خان کا خود کورونا کا شکار ہونا بھی ہے لیکن بڑی وجہ کورونا ویکسین کے حوالے سے کرپشن کی خبریں جس پر ماتم کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے ویکسین کی خریداری میں پہلے ہی تاخیر کی گئی اور ابھی جب کوویڈ 19 کی تیسری لہر نے تباہی مچادی ہے لیکن ہماری حکومت تاحال صرف فرنٹ لائن ورکرزاور 60سال سے زائد عمر کے لوگوں کے بعد 50سال کی عمر کے لوگوں کو ویکسین لگانے کی بات کی جارہی ہے۔
وطن عزیز میں میڈیکل ریسرچ نہ ہونے کے باعث ’’غیرموثر کورونا ویکسین‘‘ شہریوں کو لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ 30میڈیکل یونیورسٹیز اور 114میڈیکل کالجز کی موجودگی کے باوجود کورونا وائرس کو مخصوص طریقے سے پہچان ہی نہیں دی جاسکی۔ ملک بھر میں اب تک کورونا سے متاثرہ کون سا مریض کس قسم کے وائرس کا شکار ہے اس بارے تاحال کوئی سائنسی ثبوت بھی موجود نہیں۔اگرچہ پاکستانی عوام کی صحت سے کوئی پہلی مرتبہ کھلواڑ نہیں کیا جارہا بلکہ ماضی میں بھی اس قسم کی ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کے تحت کام چلایا جارہا ہے اسی لئے تو آج یہ نوبت آگئی ہے کہ ہمارا ہیلتھ سسٹم ذرا سا بھی اضافی بوجھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے وزراء اور مشیر بھی اپنے سینئرز کے دیکھا دیکھی کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کررہے۔وزیراعظم کے ایک مشیر کوٹھیکہ دینے کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ اب ان میں کتنی صداقت ہے اس بارے تو معلوم کرنا وزیراعظم عمران خان کا فرض ہے اور اگر اس نازک موقع پر بھی ہر کوئی اپنے منافع کی فکر میں غلطاں ہے تو اسے قرارواقعی سزا ملنی چاہیے۔ اسی طرح کورونا ویکسین بھارت میں 870روپے جبکہ پاکستان میں 8500 سے بھی زائد میں دستیاب ہے۔ حکومت کو ماہرین صحت کے پنجاب میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کے مطالبے کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ لاہور میں مثبت کیسز کی شرح 20فیصد جبکہ اسلام آباد میں 14فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ ملتان سمیت دیگر اضلاع میں بھی صورتحال کچھ خاص اچھی نہیں ہے۔حکومت کو اس بارے وضاحت کرنی چاہیے۔ اس سنگین تر ہوتی ہوئی صورتحال میں حکومت کی عدم توجہگی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس طرح پہلے وزیراعظم اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر عوام کو کورونا ویکسین بارے معلومات فراہم کرتے تھے جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے بھی روزانہ کی بنیاد پر عوام کو اس صورتحال سے آگاہ کیا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ حکومت کی جانب سے ایسی کسی سرگرمی کو یہ جاننے کے باوجود ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اس قدر سنگین صورتحال سے ملک کا ہیلتھ سسٹم کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا۔ اب حکومت کو کون سمجھائے کہ وہ اس ضمن میں اپنی قومی ذمہ داریوں سے کیوں چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی قومی المیہ جنم لے حکومت کو اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے بصورت دیگر کورونا کا شدید تر ہوتا ہوا بحران بلاشبہ حکومت کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب کورونا کے بڑھتے ہوئے وار حکومت اور امتحان دونوں کے لئے دردسر بن گئے ہیں اور ملک ایک مرتبہ پھر لاک ڈائون کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے ایسے میںحکومت پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ حکومت اور عوام دونوں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ وطن عزیز کورونا کا کسی طور بھی مزید بوجھ نہیں اٹھاسکتے۔ اطلاع کے مطابق 24گھنٹوں میں ایک سے 10سال تک کے 49بچوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑنا ایک فطری عمل ہے ۔
کورونا کی تیسری لہر پاکستان کے لئے زہر قاتل ثابت ہورہی ہے ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مفاد پرست عناصر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وبا کے دنوں میں ملکی بہتری کے لئے کام کرتے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ من حیث القوم ہمارا مزاج ہی کچھ ایسا بن چکا ہے کہ ہر جگہ نفع نقصان دیکھتے ہیں۔ کورونا وبا کے پھیلائو میں جہاں عوام کی لاپروائی سرفہرست ہے وہیں حکومت کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات اور قانون پر عملدرآمد کو ضروری نہ بنانا بھی اس کے پھیلائو کا سبب بن رہا ہےیہ وقت کا تقاضا ہے کہ سب ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کورونا کو شکست دینے کےلئے میدان عمل میں آئیں اور اس کے لئے حکومت، اپوزیشن، میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو
ایک مربوط اورجامع لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ ایک صدارتی آرڈیننس کے لئے سب کو ملک بھر میں ماسک پہننے کا پابندبنایا جائے بصورت دیگر جرمانے اور جیل بھیجنے کے آپشن پر بھی غور کیا جائے۔پوری قوم کو مل کر معیشت کا پہیہ چلتے رہنے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے کیونکہ ملکی معیشت اس وقت جن تلخ حالات سے دوچارہے اس میں کاروبار کی بندش کا بوجھ ملک و قوم دونوں برداشت نہیں کرپائیں گے۔اسی طرح سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو مکمل طورپر بند کرنے کی بجائے شفٹوں میں طلبا کو بلایا جائے اور اسی طرح قوم کو یہ باور کروایا جائے کہ اب ہمیں کورونا کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہوگا۔اس سلسلے میں علمائے کرام پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو کورونا وبا سے احتیاط برتنے کی سختی سے ہدایت کریں اور اب جبکہ بلدیاتی ادارے سپریم کورٹ نے بحال کردیئے ہیں تو ہر علاقے کے کونسلر اور چیئرمین کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے علاقے میں ایک مخصوص تعداد سے زیادہ لوگوں کا گٹھ جوڑ نہ ہونے دیں۔ اس ضمن میں ٹائیگر فورس کو بھی میدان عمل میں لانا چاہیے۔ اس مشکل حالت میں تمام سٹیک ہولڈرز کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم مل کر ہی کورونا کو شکست دے سکتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں کورونا ایس او پیز کے تحت زندگی بسر کرنی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم کورونا ویکسین کی فراہمی کے گڑبڑ گھٹالے کے معاملے پر سنجیدگی سے ایکشن لیں۔طبی کالجوں میں پڑھنے والے طلبا کی رضاکارانہ خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔ لاہور اور اسلام آباد جیسے دیگر کئی علاقوں کو مکمل طور پر بند کردینا چاہیے تاکہ ان علاقوں میں مثبت کیسز کی شروح مزید بڑھنے نہ پائے۔ یہ وقت مل کر جدوجہد کرنے کا تقاضا کرتا ہے اس لئے قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وبا کے دنوں انہوں نے اپنی ذمہ داریاں سمجھ لیں تو جلد ہی ایک باوقار قوم کے روپ میں ابھریں گے، ان شاء اللہ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر