حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی بات ہم پچھلے چار عشروں سے عرض کرتے آرہے تھے کہ بندہ پرور تجربوں کے شوق سے نجات حاصل کیجئے۔ ہمارے اپنے مسائل بہت بلکہ گھمبیر و سنگین ہیں۔ ایسی پالیسیاں بنائیں کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے نہ طعنے بازی کا اور نہ ہی کل آپ یہ کہتے پھریں کہ ماضی میں جو ہوا غلط ہوا۔
یہ بھی عرض کرتے آرہے ہیں کہ یہ یک قومی نظریہ سے 14اگست 1947 کو معرض وجود میں آنے والی جغرافیائی حدود میں ہزاریوں سے آباد قومیتوں کی شناختوں سے متصادم ہے اس پر مصر رہنے سے مسائل پیدا ہوں گے۔
مزید یہ بھی عرض کرتے تھے کہ افغان انقلاب ثور افغان عوام کا معاملہ اور مسئلہ ہے بادشاہت کی جگہ لینے والے سردار داود نے تختہ الٹا تھا ان کا انقلابیوں نے۔
آج ہمیں کہا جارہا ہے کہ وہ سب غلط تھا۔ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، جی بالکل آگے بڑھنے کی ضرورت ہے مگر حضور اس عرصہ میں جو نقصان ہوئے ان کا ازالہ کیسے ہوگا۔
مرنے والے زندہ نہیں ہوسکتے۔
ہم یہی کہتے تھے اور اب بھی کہہ لکھ رہے ہیں کہ حب الوطنی غیرمشروط جذبہ ہے۔
پابند محض ہرگز نہیں۔ محبت وطن سے ہوتی ہے حکومت یا کسی محکمے سے محبت کو حب الوطنی نہیں کہتے۔ یہی تو ہم عرض کرتے تھے کہ غیرترقیاتی مصارف میں کمی لائی جائے۔ دستور میں فرد، طبقے، جماعت اور محکمے سب کا کردار اور حدود طے ہیں ان سے تجاوز درست نہیں۔ اب بھی یہی رائے ہے کہ دستورمقدم ہے۔ ریاست کا مذہب و عقیدہ نہیں ہوتا یہ دونوں فرد کے نجی معاملات ہیں۔
اب بھی یہی عرض ہے دستیاب وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہونے چاہئیں۔ 50فیصد سے اوپر آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ان کا کسی کو خیال نہیں۔
سیاستدان کے لئے ہر گالی اور طعنہ جائز ہے لیکن دوسروں سے سوال کی اجازت نہیں۔ کیا سوال، مکالمے اور غوروفکر کے بغیر ارتقا کا سفر ممکن ہے؟
سادہ جواب یہ ہے کہ فریب ہے جتنا مرضی دیتے رہیں۔ ارتقا کے لئے سوال، مکالمہ، غوروفکر اور تحقیق واجب ہیں۔
ہمارے آفتاب پھانسی چڑھائے گئے چاندنی بھری سڑک پر مارگرائی گئی یہ کیسے درست عمل قرار پائے گا، مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے تحفظ فراہم کیا گیا یہی ریکارڈ ہے غلط ہے تو بتایئے۔
خارجہ پالیسی اسی دن امریکی محبت کی اسیر ہوگئی تھی جب سوویت یونین کے دورہ کی دعوت منسوخ کرکے امریکہ کا دورہ کیا گیا۔
بظاہر اس کے ذمہ دار لیاقت علی خان ہیں لیکن ان پر دو طرف سے دباو تھا۔ سوویت یونین سے دور رہنے کے لئے ان دو اطراف کے ایک طرف مذہبی حلقے کھڑے تھے جن کے خیال میں کمیونزم کفر تھا، دوسری طرف آپ کھڑے تھے۔ نتیجہ کیا نکلا اس امریکہ نوازی کے سوا؟
حضور! نفرتوں پر ہوئی تقسیم سے سماج کہاں پھلتا پھولتا ہے یہاں تو داخلی ماحول میں بھی نفرتیں پروان چڑھائی گئیں پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
کبھی سائنسی علوم تحقیق و جستجو تو کفر کے سودے تھے۔ چلیں شکر ہے کہ آپ کو احساس ہوا کہ جو ہوا غلط تھا۔
ہمارے لئے یہ احساس غنیمت تو ہے لیکن کیا ملال سے نجات کے لئے جن اقدامات اور جذبوں کی ضرورت پڑتی ہے وہ ہوں گے؟
سوال سادہ ہے۔ بس سادہ سوالوں پر برا نہ منایا کیجئے۔ سوال زندگی کا حسن ہیں۔ پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے کیونکہ ہم کرائے کے مکان میں نہیں اپنے ملک میں رہتے ہیں۔ نفرت دونوں اور موجود ہے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
دنیا نے یقینا سرد جنگ اور نیو ورلڈ آرڈر کے عذاب بھگتے۔ عالمی جنگوں سے جنم لینے والی بربادیوں کا سامنا بھی کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سامراج صرف امریکہ ہی نہیں ہر وہ ملک سامراج قرار پائے گا جو شرف انسانی سے محروم ہواور اقوام کے حقوق پامال کرے۔
وقت آگیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا صرف اعتراف نہ کیا جائے بلکہ اصلاح احوال کے لئے شروعات بھی ہوں۔
پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کار کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، اسی طرح اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ داخلی معاملات میں بھی اپنے کردار کو دستوری حدود تک محدود رکھاجائے۔
ماضی کو بھلانے کی بجائے اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہترین سبق ہوتا ہے اس سے قومیں مستقبل کے لئے رہنمائی لیتی ہیں۔
غیرمساویانہ نظام کی سرپرستی ترک کرنا ہوگی یہ تسلیم کیا جانا ضروری ہے کہ اقتدار اعلی کے مالک عوام ہیں۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے وہ جسے چاہیں حق نمائندگی عطا کریں ان کے فیصلے پر چیں بجبیں ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی فیصلے پر اپنی سوچ کو مسلط کرنے کی۔
عوام جنہیں منتخب کرتے ہیں وہ ان کا احتساب بھی کرسکتے ہیں یہ جو منظم انداز میں زہر پھیلایا گیا ہے کہ عوام کو کچھ پتہ نہیں، جاہل و بے شعور ہیں یہ ظلم ہے۔
ہم مزید تجربوں کے متحمل نہیں ہوسکتے، آگے بڑھنا ہے تو زندگی کے ساتھ اپنے عصر کی سچائیوں کو بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر