نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عثمان خاں بزدار اور مظفرگڑھ یونیورسٹی ||رانا محبوب اختر

پنجاب میں عثمان خاں بزدار کی حکومت شہباز شریف سے کتنی مختلف کیوں نہ ہو۔ مظفرگڑھ کے لوگوں سے ناانصافی کرنے میں دونوں ایک ہیں۔پنجاب حکومت نے 12 اضلاع میں جامعات کے قیام کی منظوری دی ہے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب میں عثمان خاں بزدار کی حکومت شہباز شریف سے کتنی مختلف کیوں نہ ہو۔ مظفرگڑھ کے لوگوں سے ناانصافی کرنے میں دونوں ایک ہیں۔پنجاب حکومت نے 12 اضلاع میں جامعات کے قیام کی منظوری دی ہے۔ میانوالی میں یونیورسٹی آف میانوالی، راولپنڈی میں وومن یونیورسٹی، چکوال میں یونیورسٹی آف چکوال، مری میں کوہسار یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان میں چاکر خان رند یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، ننکانہ صاحب میں بابا گرو نانک یونیورسٹی، لیہ میں تھل یونیورسٹی، حافظ آباد میں یونیورسٹی آف حافظ آباد، سیالکوٹ میں یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسزز، جامعات کے شہر لاہور میں یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسزز اور منڈی بہاؤالدین میں یونیورسٹی آف منڈی بہاؤالدین کے قیام سے خوشی ہوئی ہے۔کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کورونائی اور معاشی مشکلات کے باوجود نئے تعلیمی ادارے قائم کر رہی ہے۔نوآبادیاتی ملکوں میں ٹوڈی اشرافیہ اور جاگیردارانہ سماج تعلیم سے ڈرتا ہے۔تعلیم یافتہ لوگ روشن خیال نہ بھی ہوں تو بھی درمیانے طبقے کی تشکیل کرتے ہیں۔انگریز کے دورِغلامی پر لارڈ میکالے کی جاہلانہ تعلیمی پالیسی کی چھاپ ہے۔جب 1835 میں اس نے عربوں اور ہندوستانیوں کے بارے میں کہا کہ یورپ میں کتابوں کا ایک شیلف سنسکرت اور عربی کے تمام علمی خزانے پر بھاری ہے تو لاٹ صاحب عربی اور سنسکرت کا ایک لفظ نہ جانتا تھا اور سامراجی سوچ اور سفید چمڑی کی وجہ سے عرب و عجم کو غیر مہذب وحشی اور اپنے آپ کو بڑھیا سمجھتا تھا۔اس کی تعلیمی پالیسی کا مقصد بابو، غلام اور مغرب کی نقالی یا mimicry کرنے والے غلام پیدا کرنا تھا۔کولونیل حکومت نے انگریزی تعلیم رائج کی تو سنسکرت اور فارسی تعلیم کے خاتمے کی ابتدا ہو گئی تھی۔لیکن میکالے کی پالیسیوں کے تحت قائم ہونے والے اداروں سے پڑھ کر جو نسل نکلی اس نے وہ مڈل کلاس تشکیل دی جو ہندوستان کی آزادی کا ہراول دستہ تھی۔ قائداعظم، علامہ اقبال ،گاندھی اور نہرو انگلش اداروں سے پڑھ کر آزادی کی تحریک کے سرخیل بنے۔سب کے سب قومی رہنما تھے۔پاکستان کی kleptocracyیا لوٹ مار اشرافیہ تعلیم کی دشمن ہے کہ وہ جانتی ہے کہ تعلیم کیسی ہی کیوں نہ ہو ، جناح اور اقبال بناتی ہے۔اس لئے تعلیم ان کی ترجیح نہیں ہے اور تعلیمی بجٹ بین الاقوامی معیار سے ہمیشہ کم رہا ہے۔تاکہ لوگ ان پڑھ اور غریب رہیں کہ غریبوں کو غلام بنانا اور ان پر حکومت کرنا آسان ہوتا ہے۔عثمان بزدار اور عمران خان کی حکومت میں "عین” کی خاص اہمیت بتائی جاتی ہے اور علم اور عاجزی میں بھی "عین” ہے۔ پنجاب حکومت نے بارہ جامعات بنا کر علم کے بارہ چراغ روشن کئے ہیں اور عثمان بزدار کی عاجزی ہی ان کا اثاثہ ہے!مظفرگڑھ میں بزدار کی humility مگر شہباز کی hubris بن جاتی ہے۔عثمان بزدار سمیت کسی وزیر اعلی کا مظفر گڑھ میں یونیورسٹی کا اعلان قیام تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ یوں عثمان بزدار نے مظفرگڑھ کا ہمسایہ ہونے کے باوجود لاہور کے شہباز شریف اور گجرات کے پرویز الٰہی کی روایت کو برقرار رکھا ہے!!
مظفر گڑھ سندھ ساگر دوآب کا آخری ضلع ہے ۔ سندھ اور چناب کے دھاروں کے درمیان کوئی پچاس لاکھ لوگ رہتے ہیں ۔ ضلع میں 3900 میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ پانی اور ہوا آلودہ ہیں ۔ لوگ غریب ہیں۔ نمائندے جاگیردار ہیں یا ایسے کہ انھیں روشن خیالی راس نہیں ۔مقامی اشرافیہ علم دشمن ہے!!
مظفر گڑھ ، کوڑا خان جتوئی کی جنم بھومی ہے۔وہ 1800 میں پیدا ہوئے اور 1898 میں وفات پائی۔وہ لوہرانی جتوئی تھے۔ان کا عہد سیاسی طور پر مظفر خان، سکھوں اور انگریز کا زمانہ ہے۔کوڑا خان سردار تھے اور ہمارے سردار کیسے ہوتے ہیں سب جانتے ہیں۔ مگر کوڑا خان ہمارے لئے نہ سردار ہے اور نہ خان بہادر، کہ انھوں نے صدقہ و خیرات سے فیض پایا ہے۔کوڑا خان مظفرگڑھ کے حاتم طائی اور پاکستان کے سرسید تھے ۔ہمارا یار شمیم عارف قریشی مرحوم انھیں سرسید سے بڑا آدمی کہتا تھا۔1894 میں انھوں نے 82754 کنال اراضی فلاحی کاموں لئے وقف کی جس کا فوکس تعلیم تھا۔ دیوبند 1867اور علی گڑھ 1875 میں مسلمانوں کے چندے سے بنے تھے۔ کوڑا خان نے علی گڑھ کے لئے بھی عطیہ دیا تھا۔مظفرگڑھ میں ان کی عطیہ کی ہوئی اراضی 1897 میں ڈسٹرکٹ بورڈ کو ملی ، 1960میں اس رقبے کی 247لاٹیں بنیں اور 1962میں یہ لاٹیں پٹہ پر دی گئیں۔ زمینوں کی آمدنی سے مستحق طالب علموں کو وظائف دیئے جاتے تھے۔کوڑا خان نے کئی مسجدیں بنوائیں تھیں۔ جتوئی میں ایک پرائمری سکول 1886 میں قائم کیا اور ایک ہسپتال بھی بنوایا تھا۔جتوئی سے علی پور اور جتوئی سے شاہ جمال اور چوک قریشی تک سڑکیں ان کے عطیے سے بنوائی گئیں تھیں۔ چناب پل کی تعمیر کے لئے انھوں نے اس شرط پر عطیہ دیا تھا کہ لوگوں سے ٹال ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ خواجہ غلام فرید رح کے وقف کے بعد کوڑا خان کا وقف پاکستان میں فلاح کا سب سے بڑا انتظام تھا۔اب فرید فقیررح کی زمین پر سرکار کا قبضہ ہے ۔اور کوڑا خان جتوئی جس نے سکول، ہسپتال، سڑکیں، پل اور مسجدیں بنائیں لوگ اس کا نام نہیں تک نہیں جانتے :
گلہ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ‘ہری ہری’
کوڑے خاں ٹرسٹ کی جائیداد پھر غریب کی جورو بن گئی اور ٹھیکیدار اور افسر مل کر اسے نوچتے رہے۔ مظفر گڑھ کے بانی مظفر خان کے ہم نام، ایک بہادر آدمی ، مظفر خان مگسی نے کوڑے خان جتوئی کی جائیداد کے درست استعمال کے لئے عدالت سے رجوع کیا اور 25 سال بعد 2018میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مظفرگڑھ کے لوگوں کے حق میں فیصلہ لے لائے۔ کہ ٹرسٹ بنے گا ۔ سیشن جج بلحاظ عہدہ ٹرسٹ کا سربراہ اور ڈپٹی کمشنر سیکرٹری ہوں گے۔ کوڑا خان ٹرسٹ کے سیکرٹری ضلع کے ڈپٹی کمشنر ،انجینئر امجد شعیب ترین ہیں۔مخلوق کی گواہی یہ ہے کہ حالیہ تاریخ میں مظفرگڑھ کے دو ڈپٹی کمشنر ایسے رہے جنھوں نے ضلع کے لوگوں کو own کیا۔ڈاکٹر احتشام انورنیک نام ہیں اور امجد شعیب ترین کا دفتر غریبوں سے بھرا رہتا ہے۔ کوڑے خان ٹرسٹ کے پاس 40 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم تعلیم کے لئے موجود ہے۔ ہزاروں کنال زمین میسر ہے۔ٹرسٹ کے امانت داروں(Trustees) میں کام کرنے کا جذبہ موجود ہے اور ایک ادارہ ساز، عمران خاں ، پاکستان کے وزیرِاعظم ہیں۔عثمان خان بزدار مظفرگڑھ کے ہمسائے ہیں۔لیکن پنجاب حکومت کی جاری کردہ فہرست میں مظفرگڑھ یونیورسٹی کا نام نہیں ہے !!عرض یہ اے مبصرین کرام ، کہ یونیورسٹی بننا طے ہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا کہ ہر آئیڈیا کے وقوع پذیر ہونے کا ایک وقت ہوتا ہے اور وقت کی آواز کو لمبے عرصے تک دبایا نہیں جا سکتا۔ کیا تحریکِ انصاف کی حکومت اپنے باقی ماندہ عرصہ اقتدار میں یہ سعادت حاصل کر پائے گی ! مظفر گڑھ کے بطلِ جلیل نوابزاد نصراللہ خان کا شعر ہے!!
وقت نے دی ہے تمھیں چارہ گری کی مہلت
آج کی رات مسیحا نفسا! آج کی رات
منتخب نمائندوں، عمران خان اور عثمان خان بزدار سے سوال بس اتنا ہے کہ وسائل موجود ہونے کے باوجود یونیورسٹی قائم نہ کرنے کے پیچھے آخر کیا راز چھپا ہے!طاقتوروں کو یاد رہے کہ ہم نے صدیوں مونجھ سے مزاحمت کی ہے ۔دریاؤں کے کنارے پیاسے مرے ہیں تو کبھی سیلاب میں ڈوبے ہیں۔پھر بھی ہم خواجہ فرید رح کی کافیاں گاتے ہیں ، خوش رہتے ہیں۔اذیت کی لمبی راتوں کو قصے کے رتجگے سے آنچ دیتے ہیں۔ قصے میں پریاں بیاہ لاتے ہیں، کہانی میں زندہ رہتے ہیں۔50 لاکھ لوگوں کی کہانیوں میں عثمان بزدار مظفرگڑھ یونیورسٹی بنا کر زندہ رہتے ہیں یا نہیں، فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے!

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

About The Author