سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی سیاست میں تلخی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسی عامیانہ زبان استعمال کی جارہی ہے کہ ایک باشعور انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے لیڈرز اس قسم کی زبان استعمال کرکے عدم برداشت کے رویوں کو پروان چڑھائیں گے تو پھر کس سے بہتری کی توقع کی جائے۔ مریم بی بی نے لاہور میں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جو گفتگو کی، بحیثیت پاکستانی میرا سر شرم سے جھک گیا ہے کہ وراثت میں ملی اپنی سیاسی جماعت کی نائب صدر کس طرح ایک ادارے کے سربراہ کے بارے میں اس قسم کی گفتگو کرسکتی ہے۔ میں بحیثیت پاکستانی شہری مریم نواز سے یہ پوچھنے کا حق محفوظ رکھتی ہوں کہ وہ کس Capacity میں اداروں کو مطعون کررہی ہیں۔ ان کی اس کے سوا کیا پہچان ہے کہ وہ 3مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کی بیٹی ہیں۔ کیا انہوں نے ملک کی خدمت کی، کیا کبھی جمہوریت کی بالادستی کیلئے کوئی ایک کام بھی کیا۔ آج اگر وہ سڑکوں پر تحریک چلارہی ہیں تو اپنے والد صاحب کی کرپشن کو چھپانے کیلئے۔کوئی بھی یا کارنامہ جو ان کی ذات سے منسوب ہو، اگرچہ مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اور نائب صدر مریم نواز کی طرف سے اداروں بالخصوص فوج کو کوئی پہلی مرتبہ تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کرکے آخر کس کے ایجنڈے کو تکمیل دینے کے خواہش مند ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان عالمی طاقتوں کی نظروں میں بری طرح سے کھٹک رہا ہے ایسے میں اپنے اداروں کے بارے میں اس قسم کی غیرذمہ دارانہ گفتگو اور الزام تراشی سے درحقیقت وہ ملک دشمن طاقتوں کے موقف کو تقویت دے رہے ہیں۔اگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے گھر کو درست کرنے کی بڑی بات کی ہے تو آخر اس میں غلط کیا ہے۔ آرمی چیف کی کھری کھری باتیں سن کر میرا سر فخر سے بلند ہوگیاہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے لوگوں کو تکنیکی اور سائنسی ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند کرکے خوشحالی اور ترقی کے نئے دور کی شروعات کرنے کی بات کررہے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ماضی سے سیکھ کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔
بلاشبہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ سیاستدان الفاظ کا چنائو کرتے وقت محتاط رہیں خاص طورپر اس وقت جب ہماری سیاست میں انڈا اور ڈنڈا کلچر تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ آخر اس قسم کی سیاسی تربیت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ مریم بی بی یا فردوس عاشق اعوان دونوں کی جانب سے جو زبان استعمال کی جارہی ہے وہ کسی طور بھی لیڈر اورمشرقی خواتین کے شایان شان نہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ پنجاب میں فردوس عاشق اعوان کو مریم نواز کی لفظی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے اتارا گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ایسا چلے گا۔ آج بھی نوازشریف کے بی بی شہید کو پیلی ٹیکسی کہنے کے الفاظ ہمیں یاد ہیں۔ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ بلاشبہ مریم نواز کسی طور بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا مقابلہ نہیں کرسکتیں تاہم انہیں ان کی سیاست سے ضرور سبق سیکھناچاہیے۔
مریم نواز وزیراعظم پاکستان کے بارے میں سلیکٹڈ اور تابعدار خان جیسے جو الفاظ استعمال کررہی ہیں دراصل وہ 22کروڑ عوام کے مینڈیٹ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے بھی بعض اوقات ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جو کسی طوربھی ان کے شایان یان نہیں۔ لیڈرز اپنے کارکنوں کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ یہاں بلاول بھٹو کی تعریف نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی وہ ہمیشہ جمہوریت کی پاسداری اور جمہوری رویوں کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ان کی جمہوریت بھی اپنے مفادات کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہے وگرنہ ہم سابق صدر آصف علی زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر تاحال نہیں بھولے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں اداروں کو جو ہمہ وقت تنقید کا نشانہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے بنایا جارہا ہے وہ کسی طور بھی قابل ستائش نہیں جس سے میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ ابھی چند روز قبل حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا ناجائز مطالبہ کیا گیا جس سے یہ تاثرملا کہ چونکہ پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کا کیس چل رہا ہے اس لئے الیکشن کمیشن کو دبائو میں لانے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا گیا۔ اگر الیکشن کمیشن اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کررہا ہے تو آئین و قانون کے تحت اپنی شکایت رجسٹر کروائی جانی چاہیے۔۔ اسی طرح حکومت اگر سپریم کورٹ کے الیکشن کمیشن کو جاری کردہ ہدایت پر عملدرآمد کی خواہاں ہے تو اس کے لئے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرے اور انتخابی اصلاحات پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کرے کیونکہ انتخابی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے اس لئے حکومت نے جو کمیٹی بنائی ہے اس میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تاکہ آئندہ کو کسی کو سلیکٹڈ اور جعلی وزیراعظم کہنے کا موقع میسر نہ آسکے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے آئندہ انتخابات کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے کام تیزی سے جاری ہونے کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی انتخابات میںانتخابی عمل کا حصہ بنانے کی کوششوں کا دعویٰ کیا جارہا ہے تو ضروری ہے کہ اس میں کسی قسم کی مزید تاخیر سے گریز کیا جائے کیونکہ پہلے ہی اس حوالے سے کافی دیر ہوچکی ہے۔
آج پاکستانی عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابی اصلاحات کب ہوتی ہیں یا پی ڈی ایم کب اپنا لانگ مارچ شروع کرتی ہے۔ عوام کو تو اس وقت صرف دو وقت کی روٹی پوری کرنے کی فکر ہے کیونکہ کورونا کے بڑھتے ہوئے وار عوام کو دیوار سے لگارہے ہیں اور انہیں صرف اور صرف سانس کی دوڑ جاری کیسے رہے گی، کی ہی فکر کھائے جارہی ہے۔ مہنگائی کا بے قابو جن اور حکومتی نااہلی کا اعتراف عوام کو ایک گہری کھائی کی طرف دھکیل چکا ہے اور وہ انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔ کورونا ایک عالمی وبا ہے اور اس تیسری لہر نے پاکستانیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے مگر افسوس کہ سیاسی جماعتوں نے جلسے جلوسوں کا عندیہ دے دیا ہے یعنی کورونا کو مزید پھیلانے کی بھرپور تیاری کی جارہی ہے ایسے میں عوام کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کریں کیونکہ ہمارے سیاستدان حسب روایت سیاست سیاست کے کھیل میں مصروف عمل ہیں بلکہ ان کو سڑکوں پر لاکر کارکنوں کو مشتعل کرکے جنگ و جدل کا میدان بنانے کو تیار ہیں اسی لئے تو 26 مارچ کو مریم بی بی نے نیب میں پیشی کے موقع پر پوری بارات ساتھ لے کر جانے کا اعلان کیا ہے جو یقیناً نیب کو دبائو میں لانے کی ایک حکمت عملی ہے۔ ان حالات میں جب سیاستدانوں کی جانب سے اداروں کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو اداروں پر لازم ہے کہ وہ آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری تندہی کے ساتھ ادا کریں۔ نیب اور الیکشن کمیشن دونوں اپنی بہترین کاکردگی سے مخالفین کے منہ بند کریں اسی طرح اداروں پر تنقید کرنے بارے قانون کو بھی حرکت میں آنا چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو دوبارہ قومی اداروں کے ساتھ ایسا کرنے کی جرات نہ ہو۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے اداروں پر تنقید میں تیزی دیکھ کر عوام کی جانب سے بھی والیم10 کو کھولنے کا مطالبہ بڑھتاہی جارہا ہےکیونکہ اس ملک کے اصل سٹیک ہولڈرز 22کروڑ عوام ہی ہیں۔ سیاستدانوں کو تو صرف اپنی باری لینے کیلئے پاکستان یاد آتا ہے ورنہ ملک کو اس بدحالی میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ہے اور رہی سہی کسر پی ٹی آئی کی آئی ایم ایف پر مبنی وزارت خزانہ پوری کررہی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر