حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی عمل میں زبان درازیوں اور اوئے توئے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے احاطہ میں نکلا لیکن ہمیں دو دن پیچھے بھی جانا پڑے گا جب تحریک انصاف کے جھنڈا اور ڈنڈا بردار کارکنوں کے ایک ہجوم نے لاٹھیوں اور پتھروں کے ساتھ شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف کے گھر پر حملہ کیا تھا۔
اس حملہ کے اگلے روز تحریک انصاف نے ایک جلسہ بھی منعقد کیا۔سوموار کے روز وزیراعظم کے مشیر شہباز گل پر عدالت کے احاطہ میں نون لیگ کے مردوزن کارکنان نے انڈے، سیاہی اور جوتے پھینکے۔ پولیس اور تحریک انصاف کے کارکن انہیں بچاکر لے گئے۔
اس کے بعد شہباز گل نے پریس کانفرنس میں جو زبان استعمال کی فساد کی اصل وجہ بھی یہی تھی۔ نفرت کا اس ملک کے قیام اور پھر سیاست دونوں میں بنیادی کردار ہے۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم مذہبی جماعتیں، ان کا کاروبار سیاست و دھرم نفرت سے بھرے افکارپر چلتا ہے۔
یہاں کس نے کس کو معاف کیا؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ کسی نے بھی نہیں۔ جب جس کا دائو لگا اس نے دوسرے کے لئے سوقیانہ جملے اچھالے اور داد پائی۔
ایک طویل فہرست ہے سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں کی جن کا طوطی سوقیانہ جملوں کی بدولت بولااورخوب بولا۔
پنجاب کی سیاست کا مزاج پنجابی فلموں والا بنادیا گیا ہے۔ وضاحت سے بات کروں تو یہ کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز نے حالیہ دنوں میں چند سنگین الزامات لگائے ان میں ایک الزام یہ بھی ہے کہ ایک ادارے سے ٹیلیفون پر مریم نواز کو قتل کرنے کی دھمکی والا فون آیا۔
چند دن بعد ایک ٹی وی پروگرام میں نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی نے اس دھمکی اور ماضی کے چند افسوسناک واقعات کو ملاکر سوالات اٹھائے۔ اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد وہ کون سی گالی ہے جو میاں جاوید لطیف کو نہیں دی گئی۔
فقیر راحموں کے بقول میاں جاوید لطیف جیسے نادرست آدمی نے زندگی میں پہلی بار اگر چند درست باتیں کرتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں تو ان سوالات کا جواب دیا جانا چاہیے تھا گالی، فتوی یا ان کے گھر پر حملہ نہیں۔پاکستانی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہمیشہ نرالے رہے۔
عدم برداشت اور نفرتوں کی سیاست نے ہمیں ماضی میں بھی کچھ نہیں دیا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں جنم لینے والی مسلم لیگ جو اب مسلم لیگ(ن)کہلاتی ہے نے عشروں عدم برداشت کی سیاست کی لیکن وقت آگے بڑھتا ہے بھٹو صاحب کی پھانسی پر تین دن لنگر تقسیم کرنے والے ہی آج سوال کرتے اور کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ بھٹو کی پھانسی نے المیوں کو جنم دیا مزید ستم بینظیر بھٹو کے قتل نے ڈھایا۔
سچ یہ ہے کہ ہمیں سانحوں سے بچنا ہوگا مگر کیسے؟
دو طریقے ہیں اولاً بدزبانی کو ہنر اور پھر ترقی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ثانیاً یہ کہ ہر شخص، طبقہ اور محکمہ حد ادب میں رہے۔ حد ادب سے مراد قانون کی وہ حد ہے جو دائرۂ اختیار اور حدود کا تعین کرتی ہے۔
مکرر عرض کروں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر آدمیوں کے سینے میں دل بھی ہوتا ہے اور منہ میں زبان بھی، ضرورت اس بات کی ہے کہ دل میل سے خالی (صاف)ہو اور زبان قابو میں رہے۔
ان سموں حضرت سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم یاد آئے۔ فرماتے ہیں
"کلام کرو تاکہ پہچانے جاو”
ہمارے استاد مکرم سید عالی رضوی مرحوم کہا کرتے تھے امام علی کا یہ ارشاد تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر، عدالتوں اور پارلیمان کے داخلی گیٹ پر کندہ کروادیا جانا چاہیے۔
ہم اپنے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ پچھلے چند دنوں کے دونوں واقعات میاں جاوید لطیف کے گھر پر حملہ اور غداری کے فتوے، شہباز گل پر انڈے اور سیاہی پھینکنا اور ان کی ردعمل والی پریس کانفرنس یہ سب نہ ہوتا تو اچھا تھا افسوس کہ سیاسی کارکن کی جگہ ٹھیکیداروں، زبان درازوں اور اندھی عقیدت کا شکار بونوں نے لے لی ہے۔
دستیاب جماعتوں سے مودبانہ درخواست ہے ایک بار پھر نظریاتی سیاست اور کارکن سازی کو رواج دیجئے۔ سیاسی کارکن تدبر، تحمل، حوصلے اور اخلاقیات کا اعلی نمونہ ہوتے ہیں۔ زبان درازوں نے سیاست کو برباد کردیا ہے۔
کیا اہل سیاست سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور اصلاح احوال کے لئے سنجیدہ کوششیں؟۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر