نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حبس اور تعصبات سے اٹے سماج کا المیہ||حیدر جاوید سید

آپ اگر ایک غلط(بقول آپ کے) مؤقف کے جواب میں قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے تو لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ کوئی تو بات ہے جس کی پردہ داری کیلئے ہجوم کو اُکسایا گیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحمل کے ساتھ غور کیا جائے تو نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف نے ماضی کے دو قتلوں کا حوالہ دیتے ہوئے جو باتیں کیں وہ کسی حد تک درست ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ الزامات سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے ویڈیو پیغام میں لگائے ہیں۔ الزامات سنگین ہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف تصدیق کر رہی ہیں کہ انہیں ایک ادارے کے بڑے افسر نے فون کیا اور فنش کرنے کی دھمکی دی۔
یہ الزام درست ہے یا غلط، تحقیقات بہت ضروری ہیں کسی تحقیق کے بغیر اسے رد کرنا یا پھر تحریک انصاف کے کارکنوں کا جاوید لطیف کے گھر کا گھیراؤ کرنا غلط ہے۔
اصولی طور پر آرمی چیف کو چاہئے تھا کہ کسی تاخیر کے بغیر حکومت سے کہتے کہ وہ سابق وزیراعظم کے الزامات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنائے۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ وزیراعظم کے مشیر شہباز گل نے سوشل میڈیا پر جاوید لطیف کا ایک ویڈیو کلپ اپ لوڈ کیا اور کیپشن کے طور پر جو سطور رقم کیں وہ رکن قومی اسمبلی کی گفتگو سے مختلف تھیں
یہیں سے معاملہ بگڑا۔
ساعت بھر کیلئے رکئے کیا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو جنرل ضیا کے مارشل لا کا جبر اور دنیا بھر کے قانونی حلقے عدالتی قتل قرار نہیں دیتے؟
کیا سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس (بطور جج بھٹو کی اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل تھے) ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف نہیں کہا تھا کہ اپیل کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بنچ پر جنرل ضیا کی حکومت کا دباو بہت تھا؟
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس بنچ میں شامل ایک معزز جج جنہوں نے سزائے موت کے فیصلے کو مسترد کیا بعد میں جان بچاکر ملک سے نکل گئے۔ جسٹس صفدر شاہ ان کا اسم گرامی تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس ان کے داماد ہیں۔ کیا یہ بھی غلط ہے کہ مارشل لا حکومت پر الہام ہوا تھا کہ جسٹس صفدر شاہ کی میٹرک کی سند جعلی ہے؟
مزید غور کیجئے، محترمہ بینظیر بھٹو کیوں کیسے قتل ہوئیں؟ قتل میں ملوث مقامی کرداروں کو بچانے کیلئے کس نے پروپیگنڈہ کروایا کہ اس قتل کا بینفشری آصف علی زرداری ہے۔
غور کرتے جائیے سوال درسوال اس سے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں مخالف سیاستدان کو منہ بھر کے گالی نہ دی جائے تو روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ غدار نہ کہیں تو نیند نہیں آتی لیکن کیا73برسوں میں کسی ایک سیاستدان کو غداری کے جرم میں سزائے موت ہوئی؟ جی نہیں۔
جنہیں ہوئی میں ان کا ذکر کرنے سے قاصر ہوں۔ کیوں؟ وجہ آپ بھی جانتے ہیں۔
اپنے سماج، ریاست، نظام اور حکومتی لچھنوں کے 73برسوں پر جستہ جستہ نگاہ ڈالئے پھر بتایئے کہ دودھ سے جلے چھاجھ پھونک پھونک کر پیتے ہیں کہ نہیں۔
جاوید لطیف ممکن ہے الفاظ کا چنائو درست نہ کر سکا ہو۔ میں اور آپ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن حد سے بڑی حب الوطنی کے زعم میں اس کے گھر کا گھیرائو پتھرائو یا خود اس پر حملہ (اس کا دعوی ہے کہ اس پر حملہ کیا گیا) یہ کیسے درست قرار پائے گا؟ بدقسمتی سے میں عشروں سے ان سطور میں تواتر کیساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ سیاست بند گلی میں نہیں ہوتی، تحمل اور برداشت کیساتھ دوسرے کا مؤقف سنیں۔
وہ غلط ہے تو دلیل سے اپنی بات کیجئے تاکہ لوگ فیصلہ کریں کون غلط اور کون درست ہے۔
آپ اگر ایک غلط(بقول آپ کے) مؤقف کے جواب میں قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے تو لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ کوئی تو بات ہے جس کی پردہ داری کیلئے ہجوم کو اُکسایا گیا۔
مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہم ایک حبس زدہ اور متعصب سماج میں جنم لینے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
اس سماج میں مکالمہ بغاوت اور جہالت وتعصب رزق ہے۔
کاش ہم نے 73برسوں میں علم پروری اور انسان سازی کے ادارے بھی بنائے ہوتے۔
اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ ملک میں لاکھوں تعلیمی ادارے موجود ہیں۔
بہت ادب سے عرض کروں یہ تعلیمی ادارے لکیر کے فقیر کلرک اور خبط عظمت کا شکار دولے شاہ کے چوہے پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔
کاش کوئی سمجھاسکے کہ تعلیم طالب علم کو علم کے دروازہ پر لیجاکر کھڑا کرتی ہے عالم نہیں بنا دیتی لیکن جہاں معلم کو ماسٹر کہا جاتا ہو وہاں شکوہ فضول ہے۔
مکرر عرض ہے میاں نوازشریف کے الزامات غلط بھی ہیں تو یہ سنگین نوعیت کے ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ عوام حقیقت جان سکیں۔
ثانیاً یہ کہ وزیراعظم اپنے غیرملکی مشیروں کو سمجھائیں کہ وہ زبان و بیان میں تحمل کا مظاہرہ کریں الفاظ کے چناو میں خاص احتیاط، ہم کسی نئے سانحہ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
پچھلے سانحات ہی جان نہیں چھوڑ رہے کیونکہ ان کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے حقائق کو مسخ کرنے کی بھونڈی کوششیں کی گئیں۔
کیا ہم اُمید کریں کہ اہل اقتدار ان معروضات پر غور فرمانے کی زحمت کریں گے؟

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author