رؤف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کٹے ہونٹوں، پھٹے پاوں، اجڑے بالوں، تھکے ہارے لیکن آنکھوں میں ایک جہد سے بھرپور جذبے کی چمک لیے نوجوان ایک قافلے کی شکل میں لاہور پہنچے۔ یہ کاروان حالیہ تاریخ کا منفرد ترین کاروان تھا جو کتاب و قلم کا نعرہ لگاتے بے حس شہر کے بے حس مقتدرہ کو جھنجھوڑنے آیا تھے۔ بلوچ کونسل ملتان کے بینر تلے بہاوالدین زکریا ملتانی کے نام سے منسوب جامعہ کے بلوچ طلباء نے ایک مہینے سے بھی زیادہ موسم کی سختیوں کے باوجود جامعہ انتظامیہ کے خلاف یونیورسٹی گیٹ پر احتجاجی دھرنا دیا۔ مطالبات بڑے سادہ، قابل فہم اور قابل عمل تھے۔ بلوچستان پر جاری جبر کی وجہ سے یہ خطہ ہر حوالے سے ملک کے دیگر خطوں سے پیچھے رہ گیا۔ منرل ریسورسز کی لوٹ مار کے باوجود بلوچستان کو بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ جس کے نتیجے میں مزاحمت کا ابھرنا ایک فطری عمل تھا۔ ایک طرف مسلح مزاحمت شروع ہوئی تو دوسری طرف اپنے حقوق کے حصول کیلیے طلباء اور نوجوانوں نے جمہوری جدوجہد شروع کر دی۔ اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر بلوچستان کے نوجوانوں کیلیے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں شہباز گورنمنٹ نے اسکالرشپس اور کوٹہ مختص کیا تا کہ بڑھے ہوئے ٹمریچر کو کول ڈاون کیا جا سکے۔ یہ اسکالر شپس کا سلسلہ سالوں سے چلا آ رہا تھا۔ پھر بدقسمتی بلوچ نوجوانوں کی کہ پنجاب کا وزیراعلی ایک بلوچ کو سلیکٹ کر لیا گیا۔ اور بلوچ وزیراعلی کی حکومت نے بلوچ طلبا پر تعلیمی دروازے بند کرنے کا شاہی فرمان جاری کر دیا۔ اس شاہی فرمان کی واپسی کیلے بلوچ طلبا نے جمہوری راستہ اختیار کرتے ہوئے احتجاج شروع کیا لیکن شنوائی نا ہوئی۔ اس کے جواب میں مجبورا طلباء نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے ملتان سے اسلام آباد براستہ لاہور پیدل لانگ مارچ شروع کر دیا۔
اس لانگ مارچ کے شرکاء میں ڈی جی خان اور راجن پور کے بلوچ طلباء بھی شامل تھے۔ اور مارچرز کے مطالبات میں ان علاقوں کے طلباء کیلیے مخصوص کوٹہ اور اسکالرشپس کی فراہمی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ بلوچستان کی طرح کوہ سلیمان بھی پنجاب کا سب سے پسماندہ خطہ ہے۔ ڈی جی خان اور راجن پور میں واقع کوہ سلیمان جو کہ ہزاروں مربع کلومیٹر پر محیط ہے اس علاقے میں ایک کالج تک موجود نہیں ہے۔ لاکھوں آبادی آج بھی پتھر دور سے مشابہہ پسماندگی کی وحشت ناک صورت حال کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کوہ سلیمان سے بھی ریاست منرل ریسورسز کی مد میں اربوں کا ریوینیو وصول کرتی ہے لیکن یہاں پر بھی حالات بلوچستان سے مختلف نہیں۔
پیدل لانگ مارچ کے شرکاء جب لاہور مال روڈ پہنچے تو بلوچ وزیر اعلی کی انتظامیہ نے ڈنڈہ بردار جتھوں سے استقبال کیا۔ طلباء نے تمام تر انتظامی پریشر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چئیرنگ کراس پر دھرنا دے دیا۔ جس میں ملک کی تمام طلباء تنظیموں اور بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اظہار یکجہتی کیا۔ اس صورتحال سے پریشر میں آ کر پنجاب حکومت نے طلباء کے تمام مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کو تسلیم بھی کیا اور ایک معاہدہ کے ذریعے نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا۔ لیکن وہی پرانے ڈیلے ٹیکٹکس استعمال کرتے ہوئے ڈی جی خان اور راجن پور کے حوالے سے کیے گئے معاہدے سے کوہ سلیمان کے قبائلی سی ایم کی حکومت منحرف ہو گئی۔ طلباء نے بارہا یادہانی کروائی لیکن کوئی نتیجہ نا نکلا۔ اب پھر سے طلباء احتجاج کرنے پر مجبورہیں۔
اب یہ چیز سمجھ سے بالاتر ہے کہ ڈی جی خان کا سی ایم بلوچستان کے طلباء مطالبات تو کسی حد تک مان لیتا ہے لیکن ڈی جی خان اور راجن پور کے طلباء کے مطالبات سے منحرف ہو جاتا ہے۔ ان طلباء کا جرم یہ ہے کہ دہائیوں سے ان کی سرداری کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو احترام دیتے رہے۔ اس کی انگریز چاکری کے عوض ملنے والی معتبری کو تسلیم کرتے رہے۔ ان طلباء کا جرم یہ ہے کہ اس کو ووٹ دیتے رہے۔ بلوچ تو زبان سے کیے معاہدے کی پاسداری میں جان تک قربان کر دیتا ہے لیکن یہ کیسا بلوچ ہے جو لکھی ہوئی دستاویز اور وعدے سے منحرف ہو گیا۔ سی ایم صاحب یہ وعدہ خلافیاں، سازشیں اور کوہ سلیمان کو تعلیم سے دور کرنے کی کوششیں آپ کے خلاف چارج شیٹ ہیں۔ اور بلوچ قوم کا ہر نوجوان آپ کی اس کوہ سلیمان دشمنی پر آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتا۔ طلباء جدوجہد جاری ہے اور اس طرح کے تعلیم دشمن، وطن دشمن اور وعدہ خلافوں کا محاسبہ ضرور ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:
2مارچ سرکاری بلوچ کلچر ڈے،او وی سرائیکی وسیب وچ||اکبر ملکانی
سرائیکی لوک سانجھ شادن لُنڈ دے کٹھ دا مشترکہ تے متفقہ اعلامیہ
سرائیکی نیشنلزم پس منظر اور بیانیہ۔۔۔۔ ذلفی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر