نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حبیب جالب کی یادیں اور مجاہد بریلوی ||عامر حسینی

اگلے دن جالب صاحب کو سپیشل برانج کے اہلکار پاک ٹی ہاؤس سے اٹھا کر لے گئے ان پہ طوائف کے کوٹھے پر شراب پی کر گوالمنڈی کے ایک غنڈے پہ چاقو سے حملے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجاہد بریلوی سے آج تو ٹی وی اسکرین دیکھنے والا ہر دوسرا ناظر واقف ہے لیکن ادب و سیاست اور صحافت سے جڑا ہوا ہر دوسرا تیسرا شخص بھی ان سے واقف رہا ہے جب پرنٹ میڈیا کا دور تھا۔ میں خود بھی ان کے مداحوں میں سے ہوں – عمومی طور پر میرے ہاں پیٹی بورژوازی کا کیریئر ازم ہدف تنقید بنتا رہتا ہے اور اس طبقے کا جو کمرشل لبرل ہے یہ تو بہت ہی منحوس اور بدبو دار حد تک موقعہ پرستی، جھوٹ اور دسیسہ کاری کی دلدل میں دھنسا ہوا طبقہ ہے۔ اس کی نظر معیار کے نام پہ دوسروں کے لیے ہمیشہ آسمان پہ جمی رہتی ہے اور خود کے پیر کچیڑ میں لتھڑے رہتے ہیں۔ آج کل یہ کمرشل لبرل میاں محمد نوازشریف اور ان کی بیٹی کو “مزاحمت” کا ‏عظیم ستون قرار دیتے ہیں جیسے ان سے بڑا کرانتی کاری پاکستان کی جمہوری سیاست میں نہ پہلے کبھی آئے اور نہ کبھی آئیں گے۔ اسمبلیوں سےاستعفوں سے یہ پاکستان میں قومی جمہوری انقلاب کے آنے کے دعوے کرتے پھرتے ہیں۔ مجاہد بریلوی کم از کم ان جیسا نہیں ہے اگرچہ اسے پابلونرودا ہونے یا سقراط عصر ہونے کا زعم بھی نہیں ہے۔ دو دن پہلے مجھے ڈاک سے ان کے اشاعتی ادارے لوح و قلم سے دو کتابیں موصول ہوئیں ایک واجد شمس الحسن کی کتاب “بھٹو خاندان میری یادوں میں” اور دوسری “جالب کی یادیں اور باتیں” تھیں۔ حبیب جالب سے کون ہے جو واقف نہیں ہے اور ہماری نوجوان نسل نے حبیب جالب کو مشرف کے دور میں عمومی طورایمرجنسی کے نفاذ کے وقت دوبارہ سے دریافت کیا جب ٹی وی چینلز، یو ٹیوب سمیت سوشل میڈیا پہ تازہ جبر اور سنسرشپ کے خلاف جالب کی شہرہ آفاق نظمیں خود ان کے ترنم کے ساتھ اور پھر لال بینڈ کے زریعے سے دوباہ زبان زدعام ہوئيں۔ اس سے پہلے جب ابھی سوشل میڈیا عام نہیں ہوا تھا، اسی مشرف کے زمانے میں لوگوں نے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کو لہک لہک کر اور جھوم جھوم کران کی نظم “دستور” پڑھتے دیکھا اور تو اور جنرل ضیاء الحق کی آغوش میں پل بڑھ کر اقتدار کے مزے لوٹنے والا شہباز شریف بھی یہی نظم ایسی حالت میں پڑھتا تھا جحب اس نے ماؤزے تنگ جیسا لباس زیب تن کر رکھا ہوتا اور اسی کی طرح کی کیپ جسے ماؤ کیپ بھی کہتے ہیں پہنے رکھی ہوتی تھی۔ اور وہ جالب کی نظم”دستور” بطور چیف منسٹر پنجاب ایسے وقت میں پڑھ رہا ہوتا تھا جب سانحہ ماڈل ٹاؤن میں دو عورتوں سمیت 14 شہیدوں کے خاندان پنجاب پولیس کی دہشت گردی کے خلاف انصاف مانگنے اور اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہوتے تھے۔ اور حبیب جالب کا خاندان 25 ہزار روپے کا پنجاب حکومت کا جاری کردہ وظیفے کا چیک کیش نہ ہونے اور دھکے کھانے کے سبب جيک کی وصولی سے دستبردار ہوچکا ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے لوگ جن کو زمانہ طالب علمی میں سیاست، ادب کی لت لگی ہوتی ہے ان کے ہاں حبیب جالب کی شاعری بڑے کیتھارس کا سبب ہوا کرتی تھی اوریہ آج بھی سچ ہے۔ مجاہد بریلوی نے ایک سو اٹھتر صفحات کی کتاب میں 16 عنوانات کے تحت حبیب جالب کی پوری زندگی اور ان کے فن کا اختصار سے مگر انتہائی بلیغ انداز میں احاطہ کردیا ہے۔ انہوں نے صرف ان کی شاعری پہ فوکس نہیں کیا بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی میں کتنی سختی سے “اصول پرستی” سے جڑے ہوئے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی ان کا پہلا اور آخری سیاسی پیار تھا لیکن ان کی یہ بڑائی تھی کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ولی خان کی سپورٹ کرنے انکار کردیا، کیونکہ وہ غیر جمہوری طور پر انتخابات سے پہلے احتساب کا نعرہ لگارہے تھے اور ایک آمر کے نیچے وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ مجاہد بریلوی کو بقول ان کے جالب صاحب،”مجاہد علی ” کہہ کرمخاطب کیا کرتے تھے – وہ کراچی میں پہلے عبدالحمید چھاپرا(مرحوم) کے مہمان ہوتے تھے اور عبدالحمید چھاپرا ہی حبیب جالب کی بریلوی صاحب سے دوستی کرانےکا سبب بنے تھے اور پھر جالب جب کبھی کراچی آتے تو پہلا ٹھکانہ مجاہد بریلوی کا گھرہی ہوا کرتا تھا۔ حبیب جالب کی بطور شاعر مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ان کی نظم دستور سے ہوا جو انہوں مری میں منعقدہ سالانہ مشاعرے میں پڑھی جس کی صدرت جسٹسسردار اقبال کررہے تھے۔ مشاعرے کے شرکا نے جالب کو کندھے پہ اٹھایا اور مری شہر ميں جلوس نکالا۔ اگلے دن جالب صاحب کو سپیشل برانج کے اہلکار پاک ٹی ہاؤس سے اٹھا کر لے گئے ان پہ طوائف کے کوٹھے پر شراب پی کر گوالمنڈی کے ایک غنڈے پہ چاقو سے حملے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ جالب اس کے بعد بھی کئی بار گرفتار ہوئے۔ وہ جنرل یحیی خان کے دور میں مشرقی پاکستان پہ فوجی اپریشن کے سخت خلاف تھے۔ انھوں نے اس کے خلاف نظم لکھی۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں وہ حیدرآباد سازش کیس میں میں دھر لیےگئے اور 14 ماہ قید کاٹی۔ پھر انہوں نے ضیاء الحق کے خلاف کراچی پریس کلب میں خود کو تاحیات رکنیت ملنے پر مشہور زمانہ نظم “ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا” پڑھی تو انھیں گرفتار کرلیا گیا- ایسے ہی لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں خواتین کے جلوس پر ریگل چوک کے قریب پڑتی لاٹھیاں دیکھ کر وہ میدان میں کود پڑے تو پولیس کے نوجوانوں نے ان کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کرلیا۔ حبیب جالب نے شہید بی بی محترمہ بے نظیر بھٹو کی امریکہ یاترا پہ “امریکہ نال نہ جا کڑے” لکھی تو ساتھ ہی انہوں نے ایک اور نظم بھی لکھی جس کے یہ مصرعے تو لازوال شہرت پاگئے:

 

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

 

شہید بابا ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں جب انھیں یہ بتایا گیا کہ کراچی کی اداکارہ ممتاز بيگم کو ان کی مرضی کے خلاف لاڑکانہ پہنچایا اور ان کو شاہ ایران کے سامنے رقص کرنے کو کہا گیا تو انھوں نے ایک نظم لکھی “لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو”( اب اگرچہ اس واقعے کی کوئی مستند شہادت نہیں ملتی) غالب کی یہ نظم بھٹو خاندان سے دشمنی اور نفرت کرنے والوں نے خوب استعمال کی جیسے بے نطیر بھٹو دور میں ان کی نظم استعمال ہوئی۔ حبیب جالب اصول پسند آدمی تھے جب بھٹو صاحب کی پھانسی کو کچھ ماہ ہوئے تھے تب کسی نے ان کو “لاڑکانے چلو” نظم سنانے کو کہا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ لوگ جب اقتدار میں ہوں تب ان کو للکار کر نظم سناتے ہیں اور اب ان کے بس سنانے کو ایک اور ہی نظم ہے اور انہوں نے بے ںظیر بھٹو کی سیاسی جرآت اور آمریت خلاف ان کی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوئی نظم “ڈرتے ہیں بندوقوں والے اک نہتی لڑکی سے” سے سنائی ۔ اور ایسے ہی انہوں نے تب کیا تھا جب بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی گئی تھی اور وہ دبئی جشن جالب میں اپنا کلام سنارہے تھے تو مجمع نے کہا”لاڑکانے چلو” سنائیں تو انہوں نے جواب ميں پھر “ڈرتے ہیں بندوقوں والے اک نہتی لڑکی سے” سے سنا ڈالی۔

 

مجاہد بریلوی صاحب نے اپنی کتاب کے پانچویں ایڈیشن میں آخر میں “غالب جالب” کے عنوان سے ایک مضمون شامل کیا جو اس کتاب کے ساتویں ایڈیشن میں بھی شامل ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے غالب اور جالب کی زندگی اور حالات زار میں مماثلت تلاش کی ہے اور اس مضمون کو لکھنے کا انھیں خیال اس وقت آیا جب وہ لندن جارہے تھے اور دوران سفر انھوں نے معروف نغمہ نگار اور ادیب گلزار کی “غالب” پہ لکھی کتاب پڑھی جو فکشن اسٹائل میں ہے اور یہ مضمون انھوں نے دوران سفر مکمل بھی کرلیا اور لندن ہی میں ایک تقریب کے دوران اسے سنایا بھی۔ اس کتاب میں بریلوی صاحب نے حبیب جالب کے کراچی ، لاہور اور کوئٹہ کے ان احباب کا تذکرہ کیا ہے جن کا جالب خصوصی طور پہ خود زکر کیا کرتے تھے۔ ایسے حبیب جالب کے لندن سے اپنے بزرگ دوست افضل صدیقی کو لکھے گئے خطوط کے متون بھی نکل کیے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ جالب کے کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح پڑھنے کے قابل ہے۔ یہ کتاب ہمیں بہت سی ایسی معلومات فراہم کرتی ہے جو اس سے پہلے شاید کہیں اور پڑھنے کو نہیں ملتیں۔ کتاب کے آغاز ہی میں وہ جالب کے کچھ ایسے اشعار درج کرتے ہیں جو غیرمطبوعہ اور کم معروف ہے۔

 

کون کہتا ہے اسیروں کی رہائی ہوگی

یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی

ہم غریبوں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے

ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہوگی

(جو لوگ یہ کتاب منگوانے میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ اس پتہ پہ خط لکھ کر منگواسکتے ہیں:
لوح و ادب پبلیکیشنز

45، دوسری منزل

وینسی مال کلفٹن  بلاک 9، کراچی

برقی خط کا پتا ہے:

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

About The Author