نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تبدیلی کی موجیں اور زرعی شعبہ کا بحران||حیدر جاوید سید

پچھلے اڑھائی برسوں میں ریکارڈ مہنگائی ہوئی۔ ایک وقت تھا جب وزیراعظم (ان دنوں اپوزیشن میں ہوتے تھے) بجلی اورگیس کے بل جلسوں میں لہرا لہرا کر پوچھا کرتے تھے کہ یہ فالتو اور بے پناہ ٹیکس کون کھا رہا ہے؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبدیلی کی برکات اتنی زیادہ ہیں کہ ہر طرف اس کے فیض کے چرچے ہیں، مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ پچھلے صرف دو ہفتوں کے دوران برائلر مرغی کے گوشت کی قیمت کو آگ لگی اور ایسی کہ ملک کے چار بڑے شہروں ملتان، لاہور، کراچی اور پشاور میں اس کی فی کلو قیمت340روپے سے550 روپے تک پہنچ گئی۔
روزمرہ ضرورت کی دوسری اشیا کی قیمتوں کی صورتحال کا اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر گھی اور آئل کے مختلف برانڈز کی قیمتوں میں 29روپے سے 58روپے فی کلو اضافہ حکومت کی منظوری سے کیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یوٹیلٹی سٹورز پر لگ بھگ38 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھائی گئیں۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کی قیمتیں حکومت کی فراہم کردہ سبسڈی سے مقرر کی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے سبسڈی میں کمی کردی ہے یا یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے بڑوں نے "حق خدمت” ادا کیا ہے؟
اسی دوران ایک دلچسپ بات وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہی۔
ان کہنا تھا کہ وزیراعظم نے مہنگائی کیخلاف جہاد کا فیصلہ کیا ہے، لگے ہاتھوں وہ یہ بھی بتا گئے کہ مہنگائی پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر مہنگائی پر حکومت کا کنٹرول نہیں تو پھر جہاد کس کیخلاف ہوگا اور نتیجہ کیا نکلے گا؟
پچھلے اڑھائی برسوں میں ریکارڈ مہنگائی ہوئی۔ ایک وقت تھا جب وزیراعظم (ان دنوں اپوزیشن میں ہوتے تھے) بجلی اورگیس کے بل جلسوں میں لہرا لہرا کر پوچھا کرتے تھے کہ یہ فالتو اور بے پناہ ٹیکس کون کھا رہا ہے؟
ہم تو اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اب جو بجلی وغیرہ پر ٹیکسز وصول کئے جارہے ہیں یا3روپے90پیسے فی یونٹ بنیادی ٹیرف میں اضافہ ہوا ہے یہ کیوں؟
وجہ یہی ہے کہ یہ اضافہ آئی ایم ایف کے 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کی بحالی سے مشروط تھا ابھی اس میں2روپے10پیسے مزید اضافہ ہونا ہے دیکھنا صرف یہ ہے کہ کیا یہ اضافہ بجٹ سے قبل کیا جائے گا یا پھر بجٹ میں جھٹکا دیا جائے گا۔
یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ کچھ معاملات کورونا وبا کی پہلی لہر کی وجہ سے ابتر ہوئے تھے اس دوران ذخیرہ اندوزوں کی بن آئی۔
مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا اسی دوران ایک کروڑ پچاسی لاکھ افراد بیروزگار ہوئے۔ کورونا وبا کی دوسری لہر نے مزید مسائل پیدا کئے، اب صورت یہ ہے کہ ملک میں پچھلے 14ماہ کے دوران سوا دو کروڑ لوگ بیروزگار ہوئے، روزگار کے متبادل ذرائع موجود نہیں۔
بیروزگاری کا شکار ہونے والے سوا دوکروڑ افراد کے خاندان کس حال میں ہیں اس سے وزیر خزالہ کو دلچسپی ہے نہ اس80 سالہ مشیر کو جو خود تو اصلاحات کیلئے لاکھوں روپے ماہوار حق خدمت وصول کرتا ہے مگر سرکاری محکموں کا وہی حال کرنا چاہتا ہے جو اس نے مشرف دور میں اسٹیٹ بینک کا کیا تھا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر گزشتہ اڑھائی برسوں کی حکومتی کارکردگی کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات آسانی کیساتھ سمجھ میں آسکتی ہے کہ حکومت کو صرف اپنے مخالفین کا مکو ٹھپنے کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔
مثال کے طور پر کوئی ایک ایسا اقدام بتا دیجئے کہ زرعی معیشت کی بنیادی حیثیت والے ملک میں زراعت کیلئے انقلابی فیصلے ہوئے ہوں۔
ویسے حالت ہماری (عوام کی) بھی بہت زیادہ اچھی نہیں۔ حکومت نے زرعی شعبہ میں اصلاحات کیلئے25ارب روپے رکھے تھے ہم24ارب روپے کی تو صرف چائے پی گئے۔ فروری میں کھاد کی مختلف اقسام کی فی بوری قیمت میں150روپے سے240روپے تک اضافہ ہوا، زرعی ادویات اور بیجوں کی قیمت بھی بڑھی۔
فی ایکڑ پیداواری لاگت اور آمدنی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ٹماٹر کی حالیہ فصل پر کاشتکار کو 5کلو ٹماٹر کی تھیلی کے15روپے ملے اور مارکیٹ میں ٹماٹر کی قیمت 40سے 45 روپے فی کلو ہے۔
کاشت کرنے، محنت و مشقت کرنے اور راتوں کو بیدار رہنے والے کاشتکار سے تو منڈی کے آڑھتی اور پرچون فروش زیادہ منافع کماتے ہیں۔
مکرر عرض ہے ایسا لگتا ہے کہ کسی سطح پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف جتنا زوردار پروپیگنڈہ ہوگا اتنا ہی حکومت مضبوط ہوگی۔
بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے سیاسی مخالفین عوام کا مسئلہ نہیں عوام تو یہ جانناچاہتے ہیں کہ آخر حکومت کے پاس ہمارے مسائل کے حل کیلئے وقت کیوں نہیں ہے۔ مہنگائی و بیروزگاری ہے، بالکل ہے لیکن جس ملک کی68فیصد آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے اس ملک کی حکومت صرف بڑے شہروں، صنعتکاروں اور تاجروں کیلئے ہی کیوں سوچتی ہے۔
زمین زادوں کیلئے کب اور کون سوچے گا؟ حرف آخر یہ ہے کہ جناب وزیراعظم اور ان کے رفقا کو دیگر مصروفیات سے وقت نکال کر روزمرہ کے سنگین ہوتے مسائل اور خصوصاً زرعی شعبہ کی زبوں حالی پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ مسلسل نظرانداز کئے جانے کی وجہ سے کسان مایوسی کا شکار ہے، اس کی مایوسی اور محرومی ہر دو کو حکمت عملی سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش اہل اقتدار سنگین ہوتی صورتحال کا ادراک کرپائیں۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author