نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میثاقِ معیشت، وقت کی ضرورت ||سارہ شمشاد

بعض تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس شکست کی وجہ شہباز شریف بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ اپوزیشن کی سیاست آصف زرداری کے ہاتھ میں آجائے کیونکہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان پیپلزپارٹی کو ہونا چاہیے تھا اسی لئے تو انہیں ’’ہرایا‘‘ گیا۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پی ڈی ایم میں چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن ہارنے کے بعد صف ماتم بچھ گئی ہے اسی لئے تو تمام سیاسی قائدین ایک دوسرے کو آئینہ دکھاتے نظر آرہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ الیکشن کے فوری بعد مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چودھری نے ٹوئٹ کیا کہ بلاول بھٹو صاحب ’’نیوٹرل‘‘ کا مزہ آیا جس پر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے جواب دیا ہے کہ یہ ’’تنظیم سازی‘‘ نہیں جمہوری جدوجہد ہے جبکہ ادھر ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہارنے والے مولانا عبدالغفور حیدری کا یہ بھی بیان سامنے آیا ہے کہ پی ڈی ایم کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ پی ڈی ایم کے قائدین کی جانب سے ایک دوسرے پر تابڑتوڑ حملے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جس اتحاد کا دعویٰ کیا جارہا ہے وہاں بھی سب اچھا نہیں جو حکومت کے لئے تو یقیناً ایک مثبت چیز ہے اور اسی کا فائدہ اٹھاکر وہ 26مارچ کے لانگ مارچ کے معاملے کو سیاسی انداز میں بھی حل کرسکتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو شروع سے ہی اپنی والدہ کی طرح جمہوریت کی پاسداری اور مضبوطی کی بات کرتے ہیں اس لئے عوام کو ان سے بڑی توقعات ہیں کہ وہ معاملات کو سڑکوں پر حل کرنے کی بجائے سیاسی انداز میں نمٹانے کی حکمت عملی پر ضرور عمل کریں گے۔ عوام کی بلاول بھٹو سے یہ توقع کوئی غلط نہیں ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کورونا کے مثبت کیسز کی شرح بڑھنے کے باعث ملک ایک مرتبہ پھر لاک ڈائون میں جاتا ہوا نظر آرہا ہے ایسے میں 26مارچ کے لانگ مارچ سے کورونا کیسز کے مزید بڑھنے کے امکان کو کسی طور پر بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو کیا کہا جائے کہ پچھلے برس بھی جب کورونا کی وبا عروج پر تھی تو حکومت اور اپوزیشن دونوں جماعتوں سے جلسے جلوس کرنے کا خوب دنگل لگایا اور عوام کی صحت کی ذرا برابر پروا نہ کی اس لئے اب بھی ان سے کوئی خاص بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی اس لئے عوام کو خود ہی اپنی صحت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے لانگ مارچ میں جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم کسی طور بھی سیاسی جدوجہد کے مخالف نہیں لیکن وبا کے دنوں میں سیاسی اکھاڑے عوام کے لئے موت بانٹنے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ اس لئے عوام میں اپنی صحت بارے آگاہی فراہم کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔
تاہم جہاں تک پی ڈی ایم کی چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین شپ میں شکست کا تعلق ہے تو سب اپنے تئیں اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ 11جماعتیں مل کر بھی ایک کھلاڑی کو زیر نہ کرسکیں اور اس کھلاڑی نے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو چاروں شانے چِت کرکے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ کپتان ہمیشہ ہی دبائو میں اچھا کھیلتا ہے۔ ادھر پی ڈی ایم کی جانب سے چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ’’دھاندلی‘‘ کا جو الزام لگایا جارہا ہے وہ ڈپٹی چیئرمین کے لئے پی ٹی آئی کے مرزا آفریدی کی جیت سے ازخود ہی دھل گیا 54ووٹ آفریدی نے حاصل کئے تو اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ پی ڈی ایم میں موجود سیاسی رہنما بھی ان کی پالیسیوں سے نالاں ہیں جو ایک جمہوری سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ پی ڈی ایم کی جانب سے گیلانی
کی جیت چوری کی گئی اور نتیجہ چیلنج کرنے کی بات کی جارہی ہے اور اسی بات کو مدنظر رکھ کر مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو جلد یا بدیر فتح مبارک ہو۔ اگرچہ بعض تجزیہ کار آنے والے دنوں میں سیاست میں تلخی کے امکان کو ظاہر کررہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ وقت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ عمران خان کی اوپن بیلٹ کے ذریعے سینٹ انتخابات کروانے کی تجویز بالکل درست ہے کیونکہ اگر اپوزیشن اوپن بیلٹ کے لئے متفق ہوجاتی تو معاملات یقیناً مختلف ہوسکتے تھے۔ سیاسی میدان میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو دیکھ کر عوام پریشان حال ہیں کہ اس دھماچوکڑی میں مہنگائی کا عذاب ان کی کیا درگت بنائے گا۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے گیس کے نرخ آئندہ چند ماہ تک نہ بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے لیکن خان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بدترین مہنگائی اور بیروزگاری کا عفریت یہ دونوں وہ بڑے عوامی مسائل ہیں کہ اگر پی ڈی ایم نے فقط ان دو ایشوز کو لے کر لانگ مارچ کیا تو حکومت کے لئے خاصی مشکل ہوسکتی ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید ایک جہاندیدہ شخص ہیں اور ان کی جانب سے سیاست میں ٹھہرائو آنا چاہیے کی بات کی گئی ہے جو بالکل صائب ہے کیونکہ وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے اور اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ میں کامیابی کے بعد پی ڈی ایم کو وزیراعظم سے استعفیٰ کے مطالبے بارے نظرثانی کرنی چاہیے خاص طور پر اس وقت جب وطن عزیز کو کئی محاذوں پر مسائل کا سامنا ہےتو سیاستدانوں پر لازم ہے کہ وہ ذاتی کی بجائے قومی مفاد کو اولین سمجھیں اور اس قسم کے الزامات لگانے سے گریز کریں کہ اداروں کی مداخلت بدستور قائم ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اداروں کی مداخلت کا الزام انتہائی افسوسناک ہے۔اگرچہ بعض لوگوں کی جانب سے اس ضمن میں فوج سے اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے لیکن ہماری دانست میںفوج کی جانب سے اس قسم کے بیان کا جواب نہ دے کر اچھا کیا گیا کیونکہ جواب برائے جواب سے ایک ایسی بحث چھڑنے کا اندیشہ ہے کہ جس کا کوئی اختتام نہیں ہوگا۔ سیاست دانوں کا اداروں کو سیاست میں گھسیٹنا کسی طور قابل ستائش نہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کی جانب سے اداروں کو تنقید کا نشانہ کوئی پہلی بار نہیں بنایا گیا لیکن اب اس روایت کو ختم کرنا چاہیے اور اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں مگر ادارے قائم رہتے ہیں۔ گیلانی کی چیئرمین سینٹ شکست پر بعض تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس شکست کی وجہ شہباز شریف بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ اپوزیشن کی سیاست آصف زرداری کے ہاتھ میں آجائے کیونکہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان پیپلزپارٹی کو ہونا چاہیے تھا اسی لئے تو انہیں ’’ہرایا‘‘ گیا۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاکستانی سیاست روز اول سے ہی اپنے مفادات کا طواف کرتی رہی ہے اسی لئے تو آج عوام کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ’’حبس اتنا ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ‘‘ پی ٹی آئی سے عوام کو بہت سی امیدیں تھیں لیکن عمران خان عوام کو ڈلیور کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ کورونا نے بھی حکومتی کارکردگی پر منفی اثر ڈالا ہے لیکن عوام کواس سے غرض نہیں کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق کورونا کے دوران عوام کی قوت خرید میں 32فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دراصل یہی وہ اصل بات ہے جو حکومت کو مدنظر رکھنی چاہیے کہ 5فیصد اشرافیہ کسی طور بھی 95فیصد غریب عوام پر بھاری نہیں ہوسکتی۔اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ شبلی فراز نے کہا ہے کہ اب حکومت کی توجہ مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے پر ہوگی۔ ادھر مالی سال 2021ء کے ابتدائی 8ماہ (جولائی تا فروری) میں آلو مہنگا ہونے پر رونے والی قوم نے اڑھائی کھرب کی گاڑیاں خریدیں۔ اعدادوشمار میں تضادات کو عوام الفاظ کا گورکھ دھندہ سمجھتے ہیں اور حکومت سے فی الفور بڑا ریلیف فراہم کرنے کی توقع کررہے ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے رمضان کریم میں یوٹیلٹی سٹورز کے لئے 8ارب کے پیکیج کا اعلان کیا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے اس لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں میثاق جمہوریت کی طرز پر اب میثاق معیشت کی ضرورت کو محسوس کریں اور یاد رکھیں کہ سیاست ہمیشہ زندہ انسانوں پر ہی کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author