نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریباڑی قبیلہ اور راجپوت بنجارے ||رانا محبوب اختر

کارونجھر میں پونجا پٹیل سے پوچھا کہ آپ صدیوں بعد بھی سوگ میں ہیں۔ سوگ کیوں نہیں اتارتے؟اس نے کہا کہ ہمارے رشتے دار انڈیا میں رہتے ہیں اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ ناراض ہو جائیں گے !

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انگلینڈ کے بنجاروں کا پہلا گھر ملتان ہے

راجپوتی مونچھوں والے شخص کے چہرے پر صدیوں کی جھریاں تھیں

ریباڑی قبیلہ اور راجپوت بنجارے
شام گلابی ہو گئی تھی۔راما پیر، شِو نَٹ راج اور موروں کے رقص سے پہلے ہم بوڑھے پونجا پٹیل سے ملے تھے۔کاسبو کے پاس کوئی ستر گھروں کا ایک وانڈیہ ہے۔وانڈیہ گوٹھ سے چھوٹی بستی کو کہتے ہیں۔پونجا کے پاس کھڑی دو بچیوں کے نام جیوو اور جائل تھے۔جیوو ، جینے سے ہے اور جائل کا مطلب دھرتی جائی ہے۔زمین کا اسم ِاعظم زمیں زادوں کے نام ہوتے ہیں۔ اس لئے سامراج سب سے پہلے نام تبدیل کرتا ہے۔جائل جولیٹ بنتی ہے۔پونجا پٹیل کے نام سے پونجا جناح اور گجرات کی خوشبو آتی تھی۔شام ڈھلے سفید مونچھوں اور سرخ آنکھوں والے آنبا ریباری سے ملاقات ہوئی۔ گائوں کا نام گھر ٹیاری ہے۔ننگر اور کاسبو کے رستے پر یہ ریباڑیوں کا دوسرا گاؤں ہے۔گول رنگ کے کچے کمرے کو جھوپڑ کہتے ہیں جس کے اوپر گھاس کی چھت ہوتی ہے۔مسافر نے تھر، تھل اور چولستان کے علاوہ سری لنکا اور انڈونیشیا میں ملتے جلتے جھوپڑ دیکھے ہیں۔سڑک کنارے کریانے کی ایک دوکان پر آنبا رام براجمان تھے۔درمیانے قد، سانولے رنگ، راجپوتی مونچھ اور سفید پگڑی والے شخص کے چہرے پر صدیوں کی جھریاں تھیں۔آنکھیں روبی کی طرح سرخ تھیں۔ کہتے ہیں کہ ملتان کے موحد پرہلاد کے مندر میں ایک بت تھا جس کی آنکھوں میں روبی جڑے تھے۔ایک حاکم نے بت کی آنکھیں پھوڑ کر موتی نکال لئے تھے۔وہ موتی آنبا کی آنکھوں میں روشن تھے! پونجا پٹیل اور آنبا نے بتایا کہ ریباری قبیلے کی روایت کے مطابق ریباری خواتین دودو سومرو کے سوگ میں پچھلے کوئی سات سو سال سے سیاہ لباس پہنتی ہیں!
روایت یہ ہے کہ علاء الدین خلجی کا گھوڑا بھاگ گیا۔یہ ایک طاقتور گھوڑا تھا۔سپاہی اسے پکڑنے میں ناکام ہوئے۔گھوڑا ایک تالاب پر پانی پینے کو رکا۔ایک ریباری لڑکی اس تالاب سے پانی بھرتی تھی۔سپاہیوں نے اسے گھوڑا پکڑنے کا کہا تو ریباری دوشیزہ نے اپنا پاوں گھوڑے کی باگ پر رکھ دیا۔زورآور گھوڑا جیسے جکڑا گیا تھا۔سپاہیوں کو حیرت ہوئی کہ جو گھوڑا ان کے قابو میں نہ آتا تھا، ایک لڑکی کی طاقت کے سامنے بے بس تھا۔واقعے کی تفصیل بادشاہ کے علم میں لائی گئی ۔ خلجی کو خلجان ہوا اور اس نے ریباریوں سے لڑکی مانگ لی۔قبیلے نے وقت مانگا اور راتوں رات راجستھان سے دودو سومرو کے سندھ آ گئے۔خلجی نے دوشیزہ کو واپس کرنے کے لئے دودو کو کہا مگر سندھی سورما نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایک مظلوم پناہ گزین کو واپس کرنا” آم شام” کے اصول کے خلاف ہے ۔ دودو سومرو اور خلجی کے درمیان جنگ ہوئی جس میں دودو شہید ہو گئے۔لڑائی کی دوسری وجوہات بھی ہیں لیکن ریباریوں کے واقعہ اور چنیسر و جھکرو سے قصے کی اجرک رنگین ہو گئی ہے۔صدیوں بعد بھی ریباری قبیلہ دودو سومرو کے سوگ میں ہے۔شادی کے بعد ریباری خواتین سیاہ لباس پہنتی ہیں۔شادی ، سیاہ پوشی ہے۔پدما وتی کا قصہ اور جوہر کی رسم بھی راجپوتوں کے شاہنامے کے باب ہیں۔وفا پرست ریباریوں کی قسم یہ ہے کہ جب تک کوئی سومرا دوبارہ سندھ کا حکمران نہیں بنے گا اور ان کے پاس آ کر سوگ نہیں اتروائے گا وہ سیاہ پوش رہیں گے!
کارونجھر میں پونجا پٹیل سے پوچھا کہ آپ صدیوں بعد بھی سوگ میں ہیں۔ سوگ کیوں نہیں اتارتے؟اس نے کہا کہ ہمارے رشتے دار انڈیا میں رہتے ہیں اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ ناراض ہو جائیں گے !روایت کی طاقت بیک وقت جوڑتی اور توڑتی ہے۔ریباری راجپوت ہیں۔بلراج ساہنی نے اپنے سفرنامے میں جارج بارو کی تحقیق کے حوالے سے لکھا ہے کہ انگلینڈ کے بنجاروں کا پہلا وطن ملتان ہے۔نہ جانے کیوں انھوں نے اپنا دیس چھوڑا اور صدیوں سے دربدر ہیں۔مگر جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ رومانیہ، روس، انگلستان، اٹلی ، امریکہ اور ملکوں ملکوں پھیلے بنجارے شمالی ہندوستان کے راجپوت ہیں۔یہ لوگ اب بھی اپنے وطن کو ”بڑی جگہ”کہہ کر یاد کرتے ہیں۔عجیب گھمنڈی لوگ ہیں۔مہابھارت کے خاتمے پر ان کی کھشتری شناخت تشکیل ہوئی تو وہ اپنی شناخت کے غلام بن گئے۔بہادری سے برباد ہوئے۔وہ ایرانی ،یونانی عرب ، ترک ، منگول اور گورے حملہ آوروں کے ہاتھوں کٹتے رہے مگر شناخت اور دھرم نہیں بدلا۔کئی جاتیوں نے دھرم بدل کر اپنے دکھ کا درماں کیا مگر راجپوتوں کے یہ سپوت بنجارے ہو بھٹکتے ہیں۔وہ راجستھان کے صحراؤں، ہمالیہ کی گھپاوں،کاٹھیاواڑ کے ریگزاروں اور یورپ کے شہروں کے حاشیوں پر بکھرے اپنے وطن ، "بڑے گھر” کے گیت گاتے ہیں۔وہ جوگی ہیں۔خانہ بدوش ہیں۔بھگت فقیر ہیں۔چور اچکے ہیں۔کندھا، ان کا گھر اور حافظہ، وطن ہے۔وہ اپنیشد کے بھگتوں کی طرح یقین رکھتے ہیں کہ جسم کو فنا ہے اور روح امر ہے۔ان کے جسم سامراج کی کالونیوں کے حاشیے پرحافظے کی بستیاں ہیں۔یونانی نیو افلاطونیت، ابن ِعربی کا تصورِوحدت الوجود ، سندھ کے ویدک اور گنگا کے اپنیشد فلسفے سندھ کے تیرتھوں، ویہاروں اور مزاروں میں ہم آہنگ ہوئے ہیں۔ وحدت الوجود کی مے کشید ہوئی ہے۔بنجاروں اور ہوس کاروں کی دوئی مگر قائم ہے۔خلجی سلطان کی ہوس اور سونل ریباری کی دوشیزگی سے وجود کی وحدت دو نیم ہے۔ ہوس اور وفا کی جدلیات پر وحدت الوجود کی قوالی ہو تو”حال”کا آنا محال نہیں رہتا۔راجستھان میں خواتین کی چولیاں، گھاگھرے، چنیاں، ” چوڑے” اور لال شیشے جڑے چغے تو مردوں کی ٹیڑھی مونچھیں، سفید پٹکے اورشِو کی طرح کے گیسو ، وفا کے پرچموں کی طرح ان کے جسموں کے قلعوں پر لہراتے ہیں۔ بہادری کے قصے زندہ سامراجیوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہیں:
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
بلراج ساہنی نے لکھا ہے کہ مہارانا پرتاب سنگھ نے حلف اٹھایا تھا کہ چتوڑ کا قلعہ دوبارہ فتح ہونے تک وہ چارپائی پر نہیں سوئے گا اور تھالی میں رکھ کر روٹی نہیں کھائے گا۔اس کے ساتھ اس کے ڈھائی تین سو ساتھی اس حلف میں شامل تھے۔کچھ بنجارے، انھی راٹھور سورماؤں کی نسل سے ہیں۔روایت ہے کہ ایک بار جواہر لال نہرو انھیں سمجھانے آئے کہ چتوڑ اب آزاد ہے اور آپ لوگ وطن جا کر آباد ہو جاو۔لیکن راٹھور بنجارے نہ مانے کہ وہ بہادری کے رومان کے اسیر تھے۔ایک قصے کے قیدی تھے۔ ایسی کہانیوں کے طلسم میں بندھے ہم کارونجھر سے مٹھی جاوت تھے۔مٹھی سے بدین اور بدین سے روپا ماڑی جا کر دودو سومرو سے ملنا تھا۔کارونجھر سے کوئی ایک سو تیس کلو میٹر مٹھی ہے۔تھرپارکر کا ضلعی صدر مقام، مائی مٹھی کا گاؤں ہے۔مائی مٹھی مٹی کے برتن بناتی تھیں۔سندھ کی میٹھی مٹی اور مائی مٹھی کے بنائے گھڑوں کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ شام سے پہلے ہم مٹھی سے گزرے تھے۔میروں کے بھٹ کے پہلو سے گزرتے ایک شعر سنا تھا:
شام تھیون توں پہلے پہلے ایجھیں وستی آسی
واہیں ٹھڈیاں ٹھڈیاں ملسن پانی مٹھڑا مٹھڑا
مٹھی سے بدین کوئی ایک سو دس کلو میٹر ہے۔بدین میں عمران درس اور علیم سومرو نے سندھی مہمان نوازی کی روایت کو روشن تر کر دیا تھا۔ان کے ہاں ریباریوں کے چیف میر فتح خاں ریباری اور نوجوان وکیل بھورو ریباری سے ملاقات ہوئی۔ہم نے دونوں پیارے ریباریوں سے پوچھا کہ وہ دوشیزہ جس کے قصے کے رومانس کے ہم اسیر ہیں اس کا نام کیا تھا۔بھورو نے ” سونل ” نام بتا کر قصے کو مستند بنا دیا تھا ۔ دوسری اہم بات انھوں نے یہ بتائی کہ 1969 یا 1970 میں راجپوتانہ ہسپتال، حیدرآباد اور فتح ٹیکسٹائل ملز والے ولی بھائی سومرو بدین کے ریباریوں کے پاس آئے تھے اور اپنے ساتھ سفید کپڑے کے دو ٹرک بھی لائے تھے۔انھوں نے ریباریوں کو درخواست کی کہ صدیاں گزر گئی ہیں، حالات بدل گئے ہیں۔ لہذا آپ سوگ اتار دیں۔اس کے بعد ریباری مہا کہانی، بدین میں پوسٹ ماڈرن ہو گئی تھی۔بدین کے ریباریوں نے دودو سومرو کے خاندان کے ایک اچھے بیٹے کی بات مان کر سوگ اتار دیا تھا!
یاتریوں کو بدین سے روپا ماڑی کا سفر درپیش تھا. راستہ دلدل تھا۔شام اور بارش ایک ساتھ اتر رہے تھے۔عمران درس، علیم سومرو ،رفعت عباس اور معراج خان ساتھ تھے۔ کچے راستے پر گاڑی ایک دلدل میں پھنس گئی تھی۔ دودو سومرو کے مزار کا گنبد ایسے دکھتا تھا جیسے کوئی سورما پگڑی سر پہ رکھے پورے قد سے کھڑا ہو!

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

About The Author