حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر جاوید سید
پیپلزپارٹی کے رہنما استاد مکرم سید حیدر عباس گردیزی مرحوم اور معروف ترقی پسند دانشورڈاکٹر یثرب تنویر گوندل (ڈاکٹر لال خان) کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کے مقررین کی اکثریت سرخ انقلاب کے لئے دونوں مرحومین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کررہی تھی تو میں سوچ رہا تھا کہ عملی جدوجہد سے کٹ کر محض سٹڈی سرکلز کے ذریعے انقلاب ممکن ہے؟
تعزیتی ریفرنس پیپلزپارٹی ملتان کے صدر ملک نسیم لابر کی اقامت گاہ پر اتوار کی دوپہر منعقد ہوا۔ صدارت ملک الطاف علی کھوکھر نے کی۔ گفتگو کرنے والوں میں مرحوم ڈاکٹر لال خان کے ساتھیوں کے علاوہ احمد کامران مگسی، ملک نسیم لابر، ملک الطاف کھوکھر،خالد بخاری ایڈووکیٹ اور دیگر بھی شامل تھے۔
تلخ بات یہ ہے کہ دعوتی کارڈ پر جن مزدور تنظیموں کا ذکر تھا ان کے ساتھی ریفرنس میں شریک نہیں تھے۔ پیپلزپارٹی سے جن مقررین کا نام تھا ان میں سے بھی زیادہ تر موجود نہیں تھے۔ پی پی پی والوں کے پاس بہانہ تھا کہ وہ سید یوسف رضا گیلانی کا الیکشن لڑنے اسلام آباد گئے ہوئے ہیں یا روانہ ہیں۔ اس میں بھی ایک سوال ہے وہ یہ کہ الیکشن لڑنے اور لڑوانے والوں کے پاس ووٹ کتنے ہیں۔
ضمنی سوال یہ ہے کہ چلیں نمرٹنگ پروگرام والے تو خیر اسلام آباد تھے یا راستے میں، پیپلزپارٹی کے مقامی کارکنان کی مصروفیات کیا تھیں کہ وہ اپنے مرحوم رہنما سید حیدر عباس گردیزی کو یاد کرنے کے لئے اکٹھے نہ ہوسکے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں، شادیوں کا موسم ہے لوگ مصروف ہوں گے حُسن ظن سے کام لینا چاہیے۔
مزدور تنظیموں کے بھی اگر تین تین ساتھی شرکت کرلیتے تو یہ بھی 33افراد ہوتے۔ خیر جتنے لوگ تھے ان سے پنڈال بھر ہی گیا۔ مقررین اور سامعین نے مرحومین کو دل سے یاد کیا ان کی خدمات، مطالعہ، ترقی پسند فہم سے لگائو اور جدوجہد کو یہی حق بھی تھا اور فرض بھی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے لوگ اس لئے کم آئے ہوں کہ پچھلے کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر شاگردان ڈاکٹر لال خان اور جیالے آمنے سامنے تھے۔
پپلزپارٹی کے کارکنان کے موقف کو حقیقت سے قریب سمجھتا ہوں وجہ یہی ہے کہ ہمارے ترقی پسند دوست وہ چاہے کسی بھی دھڑے کے ہوں، پیپلزپارٹی کو مطعون کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ رویہ بھی درست نہیں الزامات اچھالنے سے مکالمہ بہتر ہوتا ہے اسی طرح پیپلزپارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اس کے کارکنوں کو بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
تعزیتی ریفرنس سے ندیم پاشا ایڈووکیٹ، نادر گوپانگ اورطارق چودھری نے بھی خطاب کیا۔ میری دانست میں ایک تعصب سے اٹے تقسیم در تقسیم کا شکار معاشرے میں سب سے اہم ضرورت سماجی وحدت کے قیام اور مکالمے کو فروغ دینے کی ہے۔
حدِ ادب سے تجاوز محسوس نہ ہو تو یہ بھی عرض کردوں کہ ہمارے بعض ترقی پسند دوستوں کا رویہ بھی کسی رجعت پسند ملا سے کم تلخ نہیں ہوتا۔ تقسیم شدہ معاشرے میں سخت گیری مزید مسائل پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے۔ ممکن ہے مجھ طالب علم کی رائے غلط ہو لیکن چھ دہائیوں کے سفر حیات مطالعہ اور مشاہدے نے یہی سمجھایا ہے کہ کسی بھی قسم کے انقلاب کے لئے یہ زرخیز مٹی اور سماج نہیں ہے۔
اولین کوشش تو زرخیزی پیدا کرنے کے لئے ہونی چاہیے رجعت پسندی میں گردن تک دھنسے سماج میں تو عوامی جمہوریت کو بھی مذہب و عقیدوں سے انکار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلی صدی کی پانچویں، چھٹی اور ساتویں دہائی میں تو مولوی صاحبان ترقی پسندی کو کفر قرار دیا کرتے تھے۔
پیپلزپارٹی کوئی خالص سوشلسٹ جماعت نہیں تھی پھر بھی 1970ء کے انتخابات سے قبل 27عدد مولوی صاحبان کا فتویٰ آگیا کہ بھٹو کی پارٹی کو ووٹ دینے سے نکاح ٹوٹ جائے گا۔ گو عوام الناس نے اس فتوے کو روند کر رکھ دیا اور بھٹو کی پارٹی کو ووٹ دیئے
مگر اگلے مرحلہ میں جب افغانستان کے سوشلسٹ انقلاب کے خلاف امریکہ کے ایما پر جہاد منظم کیا گیا تو ایک بار پھر فتوئوں کی توپوں میں کفر مارنے کا بارود بھر لیا گیا۔
عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اشرافیہ کی مفاداتی جمہوریت کے کوچے سے عوامی جمہوریت کے لئے راستہ نکالا جاسکتا ہے عوامی جمہوریت ترقی پسند تحریک کی حریف نہیں بلکہ معاون ہوگی۔
یہ بجا ہے کہ اس وقت دستیاب جماعتیں حقیقت میں اشرافیہ کی طبقاتی جمہوریت کی ہی محافظ ہیں۔ کم از کم مجھے دیگر جماعتوں کے مقابلہ میں پیپلزپارٹی نسبتاً بہتر جماعت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ اس کے کارکن اور لیڈر دوسروں کی بات سن بھی لیتے ہیں اور مکالمہ بھی کرلیتے ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے جو ترقی پسند دوست اٹھتے بیٹھتے پیپلزپارٹی کو مفت میں کوستے رہتے ہیں کبھی انہوں نے سوچا ہے کہ وہ انجانے میں کس کی خدمت کررہے ہیں؟
باردیگر عرض کروں گا ترقی پسند دوستوں اور پیپلزپارٹی والوں کو دل بڑا رکھنا چاہیے۔ پارٹی فیصلے پارٹی اور ورکرز دونوں کا باہمی مسئلہ ہے۔
پھر بھی لوگوں میں پارٹی سٹیج پر بیٹھ کر آئو تائو کرنے کی بجائے اپنی قیادت کے سامنے مسائل رکھے جائیں تو بہتر ہے۔
ہمارے دوست حارث اظہر کے بقول گھر کی بات گھر میں کرلی جانی چاہیے لوگ تو صرف تماشے دیکھتے ہیں، تالیاں پیٹیں اور یہ جا وہ جا۔ یہی بات درست ہے۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ مرحومین کو یاد کرتے رہنا چاہیے خصوصاًان کو جنہوں نے نظریات اور جماعتوں کو زندگیاں دی ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر