دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے||حیدر جاوید سید

اصول وہی ہوتے ہیں جو ہم کہیں، دیانت ہمارے پہ ختم ہے۔ وزیراعظم کو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی پسند نہیں۔ انہیں حق ہے کیونکہ وہ وزیراعظم ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کا غصہ کم نہیں ہوا، وہ مسلسل الیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
کیا وہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن دستور اور قانون سے ماورا ان کے جذبات کے مطابق ایسے اقدامات کرتا جو کل اس کے گلے پڑجاتے؟
سوال یہ ہے کہ یہ الیکشن کمیشن بنایا کس نے؟ یہ وہی بات ہے جو نیب کے حوالے سے وزیراعظم اور ان کے رفقا تواتر کیساتھ پچھلے اڑھائی برسوں سے کہتے چلے آرہے ہیں۔ نیب کا سربراہ تو نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے مل کر بنایا، ہمارا اس سے تعلق نہیں۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ سینیٹ میں بلوچستان سے آزاد اُمیدوار کے طور پر جیت کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے عبدالقادر کے معاملے میں انجمن محبان بنی گالہ مکمل طور پر خاموش ہے۔
عبدالقادر کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیکر واپس لیا تھا، پھر ظہور آغا پی ٹی آئی کے اُمیدوار بنائے گئے۔ ظہور آغا سے ٹکٹ بلوچستان عوامی پارٹی کی درخواست پر واپس لے لی گئی۔ میدان باپ والوں یا عبدالقادر کیلئے خالی ہوگیا۔ عبدالقادر جیت گئے اور اب تحریک انصاف کا حصہ ہیں، غصہ پی ڈی ایم پر ہے۔
ویسے یہ عبدالقادر کیسے جیتے۔ ذرا زحمت کیجئے کوئٹہ کے کسی باخبر صحافی سے پوچھ لیجئے۔
اصول وہی ہوتے ہیں جو ہم کہیں، دیانت ہمارے پہ ختم ہے۔ وزیراعظم کو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی پسند نہیں۔ انہیں حق ہے کیونکہ وہ وزیراعظم ہیں۔
وہ وزیراعظم ہیں، اس لئے ان کا فرمایا ہوا ہی مستند ہوگا، ہونا بھی چاہئے۔
معاف کیجئے گا بات اِدھر ادھر نکلتی پھرتی ہے بات جو ہوئی منہ سے نکلی یا قلم سے لکھی پھر اپنی تو نہیں رہتی۔ ہمیں اصول و ضابطے اپنے مطلب کیلئے یاد آتے ہیں، اخلاقیات بھی صرف اپنے لئے۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا میں بیس سالوں سے مردوں کے معاشرے میں صنفی تعصبات کا شکار ہوں۔ آپا جی، مریم نواز اور مریم اورنگزیب کیلئے جو زبان استعمال کرتی اور جملے کستی ہیں انہیں کیا نام دیں؟
پونے پانچ دہائیوں سے قلم مزدوری کرتے مجھ کارکن صحافی نے زندگی میں سب سے بدترین دور جنرل ضیا الحق کا دیکھا یہ مادر پدر آزاد گالیوں کا دور تھا۔
لاہور کے بدنام زمانہ شاہی قلعہ میں ڈیڑھ سال کی اسیری کے دوران ایسی ایسی گالیاں سنیں اور برداشت کیں کہ کچھ نہ پوچھئے۔
پچھلے چند برسوں سے تبدیلی کے دیوانوں کی زبان وبیان بارے جب یہ لکھتا ہوں کہ پوری دو نسلوں کی من پسند انداز میں تربیت کرکے میدان میں اُتارا گیا۔ سابق پپلے اور نونی تو منافع ہیں۔ تو میرے بہت سارے دوست اس بات پر ناراض ہوتے ہیں
لیکن میں جب تبدیلی کے دیوانوں کی باتیں سنتا اور کلام سے استفادہ کرتا ہوں تو نجانے کیوں شاہی قلعہ میں بھگتے ڈیڑھ سال کی یادیں دستک دینے لگتی ہیں۔
میرے ایک دوست ہیں بہت نجیب اور احترام بھرا تعلق ہے ان سے، بیرون ملک مقیم ہیں ساری جوانی پیپلزپارٹی کے پرجوش حامی رہے آج کل تبدیلی سرکار کے مجاہد ہیں۔ اپنے سابقہ محبوبیت کیلئے وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو ہم شاہی قلعہ میں اپنے تفتیشی افسروں سے سنا کرتے تھے۔
اُن کے خیال میں جنرل ضیا الحق پاکستان کیلئے قدرت کا انعام اور احسان ہے۔ اب یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ ہم اس احسان وانعام کے منکرین میں شامل تھے خوب مار کھائی لیکن ایمان نہ لاپائے۔
ان دنوں ہمارے ایک تفتیشی افسر ملک مظفر اعوان ہمیں تبلیغ حب الوطنی کرتے کرتے اچانک لاتوں سے مارنے لگتے اور کہتے اج تینوں مسلمان کرکے ہی چھڈاں گا (آج تمہیں مسلمان بناکر ہی چھوڑوں گا) ہمارے یہ دوست آج کل بالکل ملک مظفر اعوان بنے ہوئے ہیں۔
باردیگر آپ سے معذرت خواہ ہوں کالم کسی اور موضوع پر لکھنا تھا باتیں کچھ اور ہونے لگیں۔ ایک نہیں کئی وجوہات ہیں اس کی، لیکن جانے دیجئے۔
دوسرے بہت سارے دوستوں کی طرح مجھے بھی خوش گمانی ہے کہ وزیراعظم دو باتوں کا نوٹس ضرور لیں گے اولاً یہ کہ خیبر پختونخوا سے ان کے دو سینیٹر زائد کیسے منتخب ہوگئے اور ثانیاً یہ کہ سندھ میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے طے شدہ فارمولا کے تحت اپنے اتحادی جی ڈی اے کے اُمیدوار کو ووٹ کیوں نہ دیا۔
یقینا یہاں یعنی دونوں نے کسی کاروباری مصلحت کو مدنظر نہیں رکھا ہوگا کچھ اور مجبوری ہوگی اسی لئے پیر پگاڑا کے بھائی محض 15ووٹ لے پائے۔
چلیں چھوڑیں یہ حکمران اتحاد کا اندرونی معاملہ ہے بیرونی معاملات کچھ اور ہیں۔ وزیراعظم کو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پر عجیب سا غصہ ہے ان کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنا غصہ اور نفرت دونوں نہیں چھپا پاتے۔ کیا ان سے کسی دن یہ پوچھا جائے کہ
حضور! یہ سینیٹ چیئرمین کیخلاف عدم اعتماد کے مرحلہ میں اپوزیشن کے ارکان کو کس نے کس مقام پر بلاکر سنجرانی کو ووٹ دینے کیلئے کہا تھا۔ کیا یہ دونوں کام اخلاقی، سیاسی اور ان کے پسندیدہ اسلامی صدارتی نظام کے اصولوں کے مطابق درست تھے؟
سیاست غصے اور نفرت سے نہیں تحمل، برداشت اور وسعت القلبی سے ہوتی ہے، سیاسی مخالف غدار نہیں ہوتے۔ مؤدبانہ درخواست ہے کہ تحمل وبرداشت سے کام لیجئے، ذاتیات توتکار کے نقصان زیادہ اور فائدے کم ہیں۔ سیاست میں جو بویا جائے وہ کاٹنا پڑتا ہے یہی لازم ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author