اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تقریروں کا بوجھ||احمد اعجاز

ایسا ہرگز نہیں ۔پھر پی ٹی آئی ووٹرز کے اندر غصے کی شدت کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ جیسے جیسے پی ٹی آئی کے اقتدار کا عرصہ بڑھتا جارہا ہے ، جہاں یہ اپنی تقریروں کے بوجھ تلے دَبتی چلی جارہی ہے
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب گذشتہ دِنوں پی ٹی آئی کے ایک کارکن نے پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما احسن اقبال کی جانب جوتا اُچھالاتو مجھے مارچ دوہزار اَٹھارہ میں جامعہ نعیمیہ لاہور میں سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف پر جوتا اُچھالا جانے کا واقعہ یادآگیا۔واضح رہے کہ اس واقعہ سے چند روز پہلے خواجہ آصف پر اُن کے اپنے حلقہ میں ایک سیاسی تقریب کے دوران سیاہی پھینکی گئی تھی۔یہ دونوں واقعات ،عام انتخابات سے لگ بھگ چارماہ قبل پیش آئے تھے۔

بعدازاں ماہِ مئی میں ،عام انتخابات سے دوماہ قبل احسن اقبال پر اُس وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا ، جب وہ اپنے آبائی گاﺅں کے ایک نزدیکی علاقہ میں کارنر میٹنگ میں مسیحی برادری سے مخاطب تھے۔جبکہ قبل ازیں ماہِ فروری میںنارووال ہی میں ورکرزکنونشن سے خطاب کے دوران اِن کی طرف جوتا اُچھالاجاچکا تھا۔

دوہزاراَٹھارہ کے عام انتخابات سے قبل کا زمانہ ،وہ زمانہ تھا جب پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں کے خلاف پی ٹی آئی ورکرز کی جانب سے نفرت بھرے غصے کا اظہارزوروں پر تھا۔اس نفرت بھرے غصے کا سلسلہ دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے پہلے شروع ہواتھا۔مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد جب چارحلقوں میں دھاندلی کا شور پی ٹی آئی نے مچایا تو اس غصے میںاضافہ ہوتاچلاگیا۔

دوہزار چودہ کے دھرنے کے دوران پی ٹی آئی رہنماﺅں کی تقاریر سے کارکنوں کے دِلوں میں نفرت بھرے غصے کو خوب بھرا گیا،پھر جب پانامہ اسیکنڈل آیا تو یہ نفرت بھرا غصہ بامِ عروج پر پہنچ گیا،یوں الیکشن سے قبل مختلف مقاما ت پر اس کا عملی ثبوت بھی دیا جانے لگا۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی ووٹرز کے ہاں نفرت بھرا غصہ اب بھی موجود ہے؟ ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نفرت بھرا غصہ تو موجود ہے ،مگر اس کی شدت میں واضح کمی آچکی ہے ،اگرچہ احسن اقبال کی اُور جوتا اُچھالنے کا تازہ واقعہ رُونما ہو چکا ہے۔

مزید براں عام انتخابات تک اس نفرت بھرے غصے کی شدت میںنمایاں حد تک کمی آچکی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟کیا پاکستان مسلم لیگ ن اپنے اُوپر پی ٹی آئی کی جانب سے لگائے گئے اُن الزامات کو ،جیسا کہ یہ کرپٹ اورچور ہیں ،ملک سے باہر پیسہ جمع کرچکے ہیں ،غلط ثابت کرچکی ہے؟

ایسا ہرگز نہیں ۔پھر پی ٹی آئی ووٹرز کے اندر غصے کی شدت کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ جیسے جیسے پی ٹی آئی کے اقتدار کا عرصہ بڑھتا جارہا ہے ، جہاں یہ اپنی تقریروں کے بوجھ تلے دَبتی چلی جارہی ہے،وہاں ایسا وطیرہ اختیار کرتی پائی جارہی ہے ،جس کو بنیاد بناکر یہ پی ایم ایل این کے خلاف نفرت بھرے غصے کو جنم دینے اور بڑھاوا دینے میں کامیاب رہی تھی۔

پی ٹی آئی کے نزدیک دونوں بڑی پارٹیاں کرپٹ ہیں اور یہ باہمی گٹھ جوڑ کرکے اقتدار پر قبضہ کرتی ہیں ،یہ انتخابات میں پیسہ چلاتی ہیں اور اقتدار کے حصول کے لیے ہر حربہ آزماتی ہیں۔

یہ دونوں جماعتیں بہ وقتِ ضرورت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کرتی ہیں ۔یہ چوروں اور مفادات پرستوں کا ٹولہ ہے،وغیرہ وغیرہ۔پی ٹی آئی نے مسلسل اس پروپیگنڈے کے ذریعہ نفرت بھرے غصے کی فضا قائم کی تھی۔یہ فضا قائم رہ سکتی تھی اگر پی ٹی آئی اپنی شناخت مذکورہ دونوں پارٹیوں کی اپنی جانب سے باور کروائی گئی شناخت سے الگ رکھنے میں کامیاب رہتی۔

مگر ایسا نہ ہوسکا،پی ٹی آئی اپنی شناخت جُدا قائم رکھنے میں یکسر ناکام ہورہی ہے۔اگر محض حالیہ دِنوں کی سیاسی ڈیولپمنٹ کو دیکھا جائے تو سینیٹ انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم میں پی ٹی آئی نے دوسری پارٹیوں کی نسبت بہترین لوگوں کا انتخاب نہیں کیا۔بلوچستان سے عبدالقادر کو ٹکٹ دیا گیا پھر واپس لیا گیا اور پھر اُن کو جتوا کر دوبارہ پی ٹی آئی میں شامل کرلیا گیا۔

اسی طرح پی ڈی ایم کے رہنما عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین شپ کی پیشکش کی گئی ،جو اُن کی طرف سے یہ کہہ کر مسترد کردی گئی کہ” چیئرمین سینیٹ کے ساتھ ملاقات کے دوران اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی ، پرویزخٹک نے میڈیا پر اس کا اعلان خواہ مخواہ کردیا ،اس گفتگو کی شدید مذمت کرتا ہوں ،جس حکومت کو اپوزیشن تسلیم ہی نہیں کرتی ،اُس حکومت کی پیشکش کی کوئی حیثیت نہیں“ا س نوع کی ایک بہترین مثال وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز کی وہ گفتگو ہے ،جس میں اُنھوں نے کہا کہ ”ہم سینیٹ انتخابات میں صادق سنجرانی کو جتوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے“

سینیٹ انتخابات اور اس سے جڑی صورتِ حال کے تناظر میں اگر پی ٹی آئی کا اندازِ سیاست دیکھا جائے تو ماضی کی حکومتوں سے کسی طورمختلف نہیں محسوس ہوتا۔جب پی ٹی آئی،اُن پارٹیوں کی طرح ،جنھیں یہ چور اور ڈاکوﺅں کی پارٹیاں کہتی ہے ،اندازِ سیاست اپنائے گی ،تو ان پارٹیوں پر اپنی جانب سے قائم کروائے گئے تاثر کو زائل کروا بیٹھے گی اور ایسا ایک حد تک ہوبھی چکا ہے۔

پی ایم ایل این اور پی پی پی کا بڑھتا اعتماد یہ واضح کرتا ہے کہ اُن پر لگے الزامات کی دُھند بتدریج چھٹتی جارہی ہے اور سماجی سطح پر اُن کی قبولیت کی سپیس بھی بڑھتی جارہی ہے۔جب ہم عام انتخابات کے قریب پہنچیں گے تو الزامات کی دُھند مکمل طورپر چھٹ چکی ہوگی اور پی ٹی آئی پر تقریروں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حدتک بڑھ چکا ہوگا۔اُس لمحے جب اِن کو یہ احساس ہوگا کہ خالی اور کھوکھلی تقریروں کا بوجھ بھی ہوتا ہے ،وقت مسکراتا ہوا دُور کھڑا ہاتھ ہلارہا ہوگا۔

۔

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

%d bloggers like this: