اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرا جسم میری مرضی ||اشفاق نمیر

میرا جسم میری مرضی سے گندے گندے‏ مطلب نکالنے والے کیا یہ جانتے ہیں کہ عورت مارچ کے مقاصد کیا ہیں مارچ کے ایجنڈے میں معیاری تعلیم کا مطالبہ، ملکی پیداوار کا %6 تعلیمی بجٹ کیلئے مختص کرنا طلباء یونینز کی بحالی شامل ہے

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا جسم میری مرضی” حقوق نسواں کے علم برداروں کا نعرہ ہے جو پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تناظر میں بلند کیا جاتا ہے پاکستان میں 2018 کے بعد سے خواتین کے عالمی دن کے مناۓ جانے والے عورت مارچ نے اس نعرے کو بےحد مقبول کیا تھا اس نعرے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر چھوا نہ جاۓ اور ان کے ساتھ زیادتی، ہراسانی یا عصمت دری نہ کی جاۓ "میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ سترہویں اٹھارویں صدی کے دوران اس وقت استعمال کیا گیا جب جاگیردارانہ نظام کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام لے رہا تھا یہ نعرہ جابر لوگوں نے مظلوم لوگوں پر مسلط کیا جب وہ اپنے گروی زدہ غلام جسموں کو اپنی ذاتی ملکیت بنانے کی جنگ لڑ رہے تھے 1969 میں یہ نعرہ اس وقت دوبارہ لگایا گیا جب حقوق نسواں کے حامی تولیدی حقوق لینے کی کوشش کر رہے تھے واشنگٹن ڈی سی میں اپریل 2004 کے مارچ کے دوران اسقاط حمل کے حامیوں نے نعرے اٹھاۓ ہوۓ تھے جس پر لکھا تھا "My Body My Choice, (It’s your choice, not theirs) (My body is not public property) اس کے جواب میں اسقاط حمل کے مخالفین نے پلے کارڈز اٹھاۓ ہوۓ تھے جس پر درج تھا (Have compassion on little ones) اور Woman needs love not abortion

2019 میں رابن سٹیون سن نے کتاب”My Body My Choice, The Fight for Abortion Rights ” لکھی جس میں دنیا بھر میں اسقاط حمل کے حقوق کے حوالے سے بات کی گئی جنوبی افریقہ میں بھی خواتین کی حقوق کی ایک تنظیم نے نمائش کا اہتمام کیا جس کا عنوان "میرا جسم میری مرضی” تھا اس نمائش میں ایک ویڈیو "Voices and Choices” کے عنوان سے دکھائی گئی جس میں اسقاط حمل کے متعلق کہانیاں اور تجربات کا ذکر کیا گیا تھا

ویلیم گولڈنگ عورت زات کے بارے میں لکھتے ہیں "میرے خیال میں یہ عورتوں کی بیوقوفی ھے وہ مردوں کو اپنے برابر سمجھتی ہیں میرے نزدیک وہ مردوں سے کافی حد تک بالاتر ہیں اور آج سے نہیں یہ ہمیشہ سے ہی ہیں تم لوگ عورت کو جو بھی دو گے وہ اسے عظیم بنا دے گی اگر تم اسے سپرم دو گے وہ تمہیں اس کے بدلے اولاد دے گی اگر تم اسے گھر دو گے تو وہ اس کے بدلے تمہیں ایک خاندان دے گی اگر تم اسے ترکاری لا کر دو گے وہ تمہیں اس کے بدلے کھانا بنا کر دے گی اگر تم اسے مسکراہٹ دو گے تو وہ تمہیں آپنا دل دے گی تم جو بھی اسے دو گے وہ تمہیں اس کا دوگنا کر کے دے گی۔ اب اگر تم اسے زلیل و خوار کرو گے تو بدلے میں دگنے تیار رہو زیادہ سے زیادہ زلیل و خوار ہونے کے لیے”

8 مارچ کو اگر عورتوں کو ان کےحقوق دینے کی بات ہوتی ہے تو ہر سطح پر اس عزم کا اظہار بھی ضروری ہے کہ بحیثیت انسان عورت کو عزت اور مساوی حثیت دینا ہو گی عورت کے خلاف ہونے والی استحصال اور ہر شکل کے تشدد کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا کیوں کہ خواتین پر ہونے والا تشدد خواتین کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے شہر کی عورت ذہنی تشدد کا شکار ہے تو دیہات کی عورت جسمانی تشدد کا. عورت پر ہر قسم کا تشدد ختم کرنے کے لیے صرف قوانین بنا دینا کافی نہیں بلکہ انہیں بہتر بنانا اور ان پر باقاعدہ عمل دارآمد کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین کے حالات بہتر ہوں تو اس کے لیے مردوں کو بھی اپنا مؤثر کردار ادا کرنا پڑے گا اور انھیں اپنی سوچوں میں تبدیلی لانی ہو گی اور انھیں مذہبی طور پر جو حقوق حاصل ہیں کم از کم وہ تو انھیں دیے جائیں اسلام میں بیٹی کا حصہ آدھا ہے اس حساب سے پاکستان کی 33٪ پراپرٹی عورتوں کے نام ہونی چاہیے لیکن حقیقت میں 1٪ بھی نہیں ہے اہم بات یہ ہے کہ اپنے حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے مردوں کی طرف دیکھنے کی بجاۓ خواتین کو خود اپنے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا

خواتین مارچ کا مقصد ہزاروں‏ عورتوں، خواجہ سراؤں اور گھروں میں کام کرنے والی لاکھوں مزدور خواتین کیلئے یونین کا حق مانگنا ہے سب کیلئے باوقار روزگار کے مواقع، مناسب اجرت، کمزور اصناف کیخلاف ہراسیت کا خاتمہ، لیبر قوانین کا اطلاق، کام کرنے والی عورتوں کے بچوں کی مناسب نگہداشت کا مطالبہ ہے یہ مارچ جہاں گھریلو تشدد کیخلاف ہے وہیں یہ شہری حقوق اور قانونِ شہادت کی کمیوں، جیون ساتھی چُننے کی آزادی، عورتوں کی فوجداری نفاذ کے اداروں میں %33 نمائندگی، تھانے کچہری میں عورتوں کیلئے الگ ڈیسک اور جنسی و گھریلو تشدد کا شکار خواتین کیلئے‏ مراکز قائم کرنے کیلئے بھی ہے

میرا جسم میری مرضی سے گندے گندے‏ مطلب نکالنے والے کیا یہ جانتے ہیں کہ عورت مارچ کے مقاصد کیا ہیں مارچ کے ایجنڈے میں معیاری تعلیم کا مطالبہ، ملکی پیداوار کا %6 تعلیمی بجٹ کیلئے مختص کرنا طلباء یونینز کی بحالی، عورتوں کی بھرپور‏ نمائندگی کو یقینی بنانا، تعلیمی اداروں سے فوج سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے انخلاء کا پہلی بار مطالبہ، عورتوں کو منتخب ایوانوں میں 33٪ نشستوں کا مطالبہ اور سیاسی جماعتوں کی فیصلہ ساز کمیٹیوں میں عورتوں کی یکساں نمائندگی ہو اسی عورت مارچ نے مطالبہ کیا ہے تو کیا یہ غلط ہے؟ اللہ جانے کس نے انہیں بتایا ہے کہ جسم کیساتھ مرضی لکھنے کا مطلب ننگا پھرنا یا پھر جنسی بےراہروی ہے

ابن رشد عورت کی آزادی کا حامی تھا وہ کہتا ہے کہ چرواہے کی کتیاں بھی بھیڑوں کی حفاظت اسی طرح کرتی ہیں جیسا کہ کتے کرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ ہماری تمدنی حالت عورتوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی لیاقت کا اظہار کرسکیں اسی غلامی کا نتیجہ ہے کہ ان میں بڑے کارنامے انجام دینے کی جو صلاحیت تھی وہ فنا ہوکر رہ گئی چنانچہ اب ہم میں ایک عورت بھی ایسی دکھائی نہیں دیتی جو اخلاقی محاسن سے آراستہ ہو ابن رشد نے یہ بھی کہا ہے کہ اسکے عہد کی زبوں حالی اور غربت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مردوں نے عورتوں کو "گھر کے مویشی” اور "گملے کے پھول” بنا کر رکھا ہوا تھا

یہ بھی پڑھیں:

چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

طعنہ عورت کو کیوں دیا جاتا ہے۔۔۔ اشفاق نمیر

مائیں دواؤں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔ اشفاق نمیر

بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی جرم۔۔۔ اشفاق نمیر

 

%d bloggers like this: