نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سردار عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ||رضوان ظفر گورمانی

اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں جب آرمی چیف پرویز مشرف اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے درمیان تلخیاں عروج پہ تھیں تب میڈیا پہ بیانات دیے جا رہے تھے کہ فوج و سول حکومت اک پیج پہ ہے۔

رضوان ظفر گورمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ جون 2004 ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی لاہور آئے تو سول سروس اکیڈمی میں انہیں صبح دس بجے ایک تقریب سے خطاب کرنا تھا۔معروف صحافی حبیب اکرم نے اس ایونٹ کو کوور کرنا تھا اور اپنے ایڈیٹر کے کہنے پہ انہوں نے میر ظفراللہ خان جمالی سے پوچھا کہ آپ کے استعفے کی خبریں زیر گردش ہیں۔جس پہ میر صاحب مسکرائے اور کہا میں نہیں تو اور کون؟ ان کے بقول حکومت کے پاس دوسری کوئی چوائس نہیں۔اس وقت تک پرویز مشرف اور چوہدری صاحبان بھی میڈیا کو یقین دلاتے رہتے کہ میر ظفراللہ جمالی ہی بدستور وزیر اعظم رہیں گے۔کچھ ہی دنوں میں حالات یوں پلٹے کہ میر ظفراللہ خان جمالی بذات خود اپنا استعفیٰ لے کر اسلام آباد میں چودھری شجاعت حسین کے پاس پریس کانفرنس کے لئے پہنچ گئے۔اور جو ظفر اللہ جمالی پوچھ رہے تھے میں نہیں تو اور کون انہیں پتا چلا کہ عارضی طور پہ چودھری شجاعت حسین وزیراعظم ہوں گے اس کے بعد امپورٹ کیے گئے شوکت عزیز یعنی ہک نہ شد دو شد۔

اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں جب آرمی چیف پرویز مشرف اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے درمیان تلخیاں عروج پہ تھیں تب میڈیا پہ بیانات دیے جا رہے تھے کہ فوج و سول حکومت اک پیج پہ ہے۔

اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں جب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور لغاری صاحب صدر تھے۔تب میڈیا پہ محترمہ لغاری کو انکل جب کہ لغاری صاحب محترمہ کو بیٹی کہہ کر مخاطب ہوتے مگر پھر زمانے نے دیکھا کہ محترمہ نے بیان دیا کہ میر مرتضیٰ کی شہادت میں لغاری کا ہاتھ ہے جبکہ لغاری نے آصف علی زرداری کو مرکزی ملزم بنا کر پیش کیا‍۔

صدر اسحاق خان ہوں یا صدر لغاری دونوں صدور نے اگلی ٹرم میں ایوان صدر میں رہنے کے وعدوں پہ کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کیا پھر ہم سب نے دیکھا کہ دونوں کو یہ سعادت نصیب نہ ہو سکی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار جب سے منتخب ہوئے تب سے ہی ان کے جانے کی تواریخ ڈسکس ہونے لگی تھیں۔کسی نے ان کو ‘ عارضی بندوبست ‘ قرار دیا کسی نے نااہل پو چکے جہانگیر ترین کا فرنٹ میں کسی نے کہا دو تین مہینے بعد بزدار صاحب کی چھٹی ہو جائے گی تو کسی دانشور نے اندرونی سٹوری بریک کی مڈ ٹرم کے بعد چوہدری صاحبان کے لیے سیٹ خالی کر دی جائے گی۔

ادھر پنجابی شاؤنسٹوں سے اک عام سا سرائیکی وزیر اعلیٰ برداشت نہیں ہو پا رہا تھا اس لیے بزدار صاحب کے خلاف میڈیا وار شروع کر دی گئی۔کسی نے کہا کہ ان پہ قتل کے مقدمے ہیں کوئی بولا کہ ان کو فائلیں پڑھنا نہیں آتیں۔

جس اینکر نے دوستی کا واسطہ دے کر نومنتخب وزیر اعلیٰ کا ایکسکلیوزو انٹرویو لیا اور منہ پہ انہیں شائستہ شاندار اور مدبر کہتے نہیں تھکے وہی اینکر صاحب چند دن بعد انہیں حواس باختہ قرار دے رہے تھے۔

ہم سرائیکیوں کا بھی عجب ری ایکشن تھا اک طبقے نے سرائیکی وزیراعلیٰ کی کھل کر سپورٹ کرنے کی تاکید تو دوسرے طبقے نے انہیں سرائیکی قوم سے ہی نکال باہر کیا اور بتایا کہ عثمان بزدار تو بلوچی ہیں اور خود کو بلوچ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔اپنی بات میں وزن لانے کے لیے وہ میر چاکر خان یونیورسٹی نام رکھنے اور بلوچی زبان میں ریڈیو نشریات کی دلیل دیتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ سرائیکی شاعر اقبال سوکڑی کا وزیراعلیٰ کا پسندیدہ شاعر ہونا اور انہیں لاہور بلا کر عزت سے نوازنے کو بطور دلیل استعمال کرتے ہیں۔

ادھر وزیر اعظم عمران خان کا بھی عجیب ریسپانس رہا کبھی وہ ان کو منجھے ہوا سیاستدان کبھی زیر تعلیم قرار دیتے رہے ہیں۔

جب جب وزیر اعلیٰ بزدار کے جانے کی افواہیں گردش کرتیں وزیراعظم آ کر ان پہ اعتماد کا اظہار کر دیتے اور یوں یہ افواہیں دم توڑ دیتیں۔اس سے قبل جب جب بزدار صاحب کے جانے کی افواہیں پھیلیں طالب علم نے وقت رہتے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا مگر اب کی بار معاملہ تھوڑا مختلف ضرور ہے۔اک طرف تو عمران خان نے خود سامنے آ کر بیان دینے کی بجائے میڈیا پہ ذرائع کے حوالے سے نیوز چلوائی کہ کابینہ کے اجلاس میں عثمان بزدار پہ اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔دوسری طرف واقفان حال کہتے ہیں کہ طاقت کے مراکز سے خان صاحب کو دو آپشن میں سے اک چننے کا اختیار دیا گیا ہے۔یا تو سردار عثمان بزدارکو وزیراعلیٰ برقرار رکھیں یا پھر سینیٹ میں صادق سنجرانی کو کامیاب کرائیں۔

اس افواہ کو تقویت بلاول بھٹو اور چوہدری صاحبان کی ملاقات سے ملتی ہے گو میڈیا پہ چوہدری صاحبان عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونے اور خان صاحب وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کر رہے ہیں مگر ماضی کی مثالوں سے عندیہ ملتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کچھ بعید نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

About The Author