عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
پی ڈی ایم نے سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینٹ کا متفقہ امیدوار نامزد کردیا
ڈپٹی چیئرمین اور قائد حزب اختلاف کے لیے نامزدگی موخر غور کے لیے کمیٹی قائم
لانگ مارچ مقررہ تاریخ 26 مارچ سے شروع ہوگا اور 30 مارچ کو راولپنڈی سے فیض آباد پہنچے گا
15 مارچ کو لانگ مارچ کے پروگرام کو فائنل شکل دینے کے لیے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس پھر ہوگا
مسلم لیگ نواز کی پنجاب اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی کی مخالفت، مسلم لیگ نواز اکثریتی جماعت ہے حکومت بنانا اس کا حق بنتا ہے(مریم نواز)
نواز شریف کا راولپنڈی میں علامتی دھرنا دینے کی تجویز
عدم اعتماد، استعفے سب آپشن اب بھی زیر غور ہیں _
پس نوشت: نجم سیٹھی سمیت کئی لبرل صحافیوں نے ایک بار پھر اس اجلاس سے پہلے پی ڈی ایم میں شدید اختلاف دکھانے کی سرتوڑ کوشش کی، انہوں نے ایک بار پھر پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان دراڑ دکھانی چاہی…… یہ وہ تجزیہ نگار ہیں سینٹ الیکشن میں حصہ لینے اور اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہونے کو اسٹبلشمنٹ سے پی پی پی کے ساز باز ہونے اور اس پہ نواز لیگ، مولانا کے سخت ناراض ہونے کا پروپیگنڈا اور پی پی پی کو پی ڈی ایم سے نکالنے تک کی خبریں اور تجزیےکیے تھے جو سارے غلط نکلے- پرسوں بلاول کی چویدری شجاعت حسین کی عیادت کو غلط رنگ میں چھاپا اور پھر مونس اللہی کے ٹوئٹ نے ان کا جھوٹ سب کے سامنے رکھ دیا-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے معروف صحافی اور تجزیہ کار جو اپنے آپ کو اینٹی اسٹبلشمنٹ اور جمہوریت پسند کہہ کر پیش کرتے ہیں اور سیاست اور سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی مہم کو وہ اسٹبلشمنٹ کا پروجیکٹ کہتے ہیں وہ پی ڈی ایم کے ٹوٹ جانے، پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان اختلافات کی جھوٹی خبریں تواتر سے کیوں پھیلارہے ہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ پی پی پی کی طرف سے پی ڈی ایم کے سامنے پاکستان میں جمہوری سیاست کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا جو روڈ میپ پیش کیا گیا جس کے اکثر حصوں سے پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں نے اتفاق کرلیا، اُس روڈ میپ کے نتائج بھی سامنے ہیں کہ حکومتی اتحاد میں اعتماد کا فقدان ہے، حکومتی پارٹی انتشار کا شکار ہے اور بیساکھی فراہم کرنے والے بھی فاصلہ بڑھارہے ہیں اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ سینٹ اور پارلیمنٹ آزادہونے والے ہیں اور صاف شفاف آزادانہ انتخابات کا راستا ہموار ہونے جارہا ہے- اس روڈ میپ سے پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتوں کو کوئی اختلاف نہیں ہے تو یہ ان اشراف تجزیہ کاروں اور صحافیوں کو کیا تکلیف ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں ان کا یہ جمہوریت پسندی اور اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونے کا اظہار ایک ناٹک اور ڈرامہ ہو اور یہ جمہوریت پسند کیمپ بارے روز افواہیں پھیلانے اور اس کے ٹوٹنے کی خبریں اور پی پی پی پی کی پالیسی بارے روزانہ کی بنیاد پہ غلط فہمیاں پھیلانے کا مشن انھیں جہموریت کے دشمنوں سے تو نہیں ملا؟
ایک بات پی پی پی کی پالیسی سے واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ جمہوری قوتوں میں سے کسی ایک قوت کے زیر عتاب آنے میں اپنے لیے موقعہ ملنے پہ غیر جمہوری قوتوں سے مل جانے پہ قطعاً یقین نہیں رکھتی، اُس نے پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران نواز لیگ کے ساتھ کھڑا ہونا بہت جانا بنسبت اُس کو گرانے، اب بھی وہ جمہوری قوتوں کے اتحاد کو مواقع پہ ترجیح دے رہی ہے، یہ پاکستان میں جمہوری سیاست کے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کے لیے اچھا شگون ہے- پی پی پی سازش سے نہیں بلکہ جمہوری سیاست سے بند راستے کھول رہی ہے اور وہ اتحادی جماعتوں سے بھی یہ امید رکھتی ہے کہ وہ کم از کم 2008ء سے 2018ء تک کی جانے والی غلطیاں نہیں دھرائیں گے، خوش آیند بات ہے کہ نواز لیگ کی قیادت کمرشل لبرلز سے ایڈوائس اور لائن لینے کی بجائے اپنے دماغ سے کام لے رہی ہے-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر