نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ چمن یونہی رہے گا!||رسول بخش رئیس

ڈاکٹر آغا خالد سعید جوانی میں بائیں بازو کی سیاست کے علاوہ ادبی اور سماجی تحریکوں میں ترقی پسند حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔ ان سے تقریباً نصف صدی پہلے اسلام آباد کی محفلوں میں ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ا

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سینیٹ کے انتخابات کی شام تصوراتی دانش وروں کے لئے ہولناک تھی۔ جمہوریت کا پاکستانی روپ دھل کر ان کے سامنے آ ٹھہرا تھا۔ ریشم میں بُنے سب خواب شدید موسموں کی زد میں آئی ہوئی پٹ سن کی بوسیدہ رسیوں کی طرح ٹکڑوں میں بٹتے اور زمین بوس ہوتے نظر آئے۔ ایک جیّد دانش ور صحافی انہی میں سے تھے‘ کہا ”آج تو حد ہو گئی‘‘۔ مہلت کے چند لمحوں میں ہم نے نیو یارک میں گزرے ہوئے کئی سالوں اور وہاں ہونے والی متعدد ملاقاتوں کا ذکر چھیڑ دیا۔ اس زمانے میں یہ ناچیز کولمبیا یونیورسٹی میں قائدِ اعظم پروفیسر کی حیثیت سے پڑھایا کرتا تھا۔ انہوں نے واضح طور پر تو نہ کہا‘ مگر اشارہ یہی تھا کہ ہمارے پاس امریکہ یا مغرب کے کسی ملک میں رچ بس جانے اور چین کی زندگی گزارنے کے لیے سب دروازے کھلے تھے‘ لیکن ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور پڑھنے پڑھانے کے بعد وطنِ عزیز میں واپس آ گئے۔ انہوں نے درست فرمایا تھا۔ میں تو کئی بار گیا اور کئی بار واپس ہی آیا‘ اور ہر دفعہ آتے وقت دوست الوداع کہتے اور یہ سوال کثرت سے کرتے کہ وہاں جا کر کیا کرو گے؟ خراب ہی ہو گے‘ دیکھو وہاں حکمران کیا کرتے ہیں‘ کیا ان کا کردار ہے‘ روزانہ جھوٹ بولتے ہیں‘ غریب عوام کو لوٹتے ہیں‘ اور زر و دولت مغربی ممالک کے خزانوں میں جمع کراتے ہیں‘ تم بھی لٹتے ہی رہو گے‘ کیسے یہ سب کچھ دیکھ کر آرام و سکون کی زندگی گزار سکو گے؟ ہمیشہ میرا جواب یہ ہوتا کہ پاکستان میرا وطن ہے‘ آپ کا بھی‘ روکھی سوکھی وہاں ان کے ساتھ کھا کر جو مزا ہے‘ وہ امریکہ کی چپڑی ہوئی میں نہیں ہے۔ تمہیں امریکہ مبارک‘ ہم تو واپس وطن جا رہے ہیں۔
بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہرین‘ جو اپنے پیشوں میں یکتائے روزگار ہیں‘ پاکستان کو جنت بنانے کے منصوبے بنا کر واپس آئے‘ لیکن کچھ ہی دنوں میں انہیں ملکی سیاست اور معاشرت کی دال کا بھائو معلوم ہو گیا۔ دکھ اور نا انصافیاں سہتے سہتے یا تو دم توڑ گئے‘ یا پھر واپس انہی وطنوں کو سدھار گئے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ عرض کرتا چلوں کہ کئی ملکوں میں تارکینِ وطن سے ذاتی‘ چھوٹی اور بڑی محفلوں میں جب بھی ملاقات ہوئی‘ انہیں آسودہ زندگی گزارنے کے باوجود پاکستان کی محبت میں مبتلا پایا۔ یقین جانیں ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہاں بھی پاکستان کے بارے میں اچھی خبروں کی امید میں رہتے ہیں۔ جب کبھی کسی سیاسی رہنما سے ملتے ہیں تو ان کا صرف ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ آپ ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ جواب انہیں وہی ملتا ہے‘ جو ہم یہاں جلسے جلوسوں میں سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر آغا خالد سعید جوانی میں بائیں بازو کی سیاست کے علاوہ ادبی اور سماجی تحریکوں میں ترقی پسند حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔ ان سے تقریباً نصف صدی پہلے اسلام آباد کی محفلوں میں ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اچانک معلوم ہوا کہ وہ ملک چھوڑ کر امریکہ چلے گئے ہیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے اشتراکی پاکستان کا زمانہ تھا۔ ان سے دوبارہ ملاقات یونیورسٹی آف کیلیفورنیا‘ برکلے میں انیس سو چوراسی میں ہوئی‘ جہاں میں ایک سال سے زیادہ عرصہ ایک فیلوشپ پر تحقیق میں مصروف رہا۔ وہاں کئی اور طالب علمی کے زمانے کے ترقی پسند ساتھی بھی مل گئے اور ہم نے ایک چھوٹا سا پاکستان برکلے میں بسا لیا۔ تفصیل سے پھر کبھی لکھوں گا‘ لیکن ضیاالحق کی حکومت کے خلاف وہاں ہم نے تحریک جاری رکھی۔ آغا صاحب فطری طور پر رہنما قسم کے آدمی تھے۔ ان کی سربراہی میں ہم نے پاکستان ڈیموکریٹک کمیٹی بنائی‘ بس یوں سمجھئے‘ ہم سب اس کے صدر اور کارکن تھے۔ روزانہ تو نہیں کہ زندگی مصروف تھی‘ مگر ہفتہ وار سیاسی محفل سجتی تھی۔ گفتگو سیاست‘ تاریخ‘ ادب‘ مشہور سیاسی شخصیات‘ تحریکوں اور عالمی حالات کا احاطہ کرتی۔ کوئی پاکستان سے دانشور‘ صحافی‘ شاعر یا ادیب آ بھٹکتا‘ تو ہم اسے ساتھ بٹھا کر ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے تقریب منعقد کرتے۔ آغا صاحب کمال کی گفتگو کرتے‘ جو بر موقع و محل اشعار سے اور بھی مؤثر ہو جاتی۔ جہاں وہ پاکستان میں گزرے دنوں‘ اپنے مشاہدات اور تجربوں و تجزیوں کی بات کرتے‘ وہاں ہم سب کو امریکی سیاست میں کردار ادا کرنے کا بھی مشورہ دیتے۔ وہ پھر وہاں کی سیاست کے ہو رہے۔ پاکستانیوں اور مسلمانوں کو منظم کرتے اور باہمی اتحاد پر زور دیتے۔ آبائی ملکوں کو نفسیاتی اور ذہنی طور پر ترک کرکے وقتِ موجود میں زندگی گزارنے کی تلقین بھی۔ اب وہ ہم میں نہیں ہیں‘ مگر سوچتا ہوں کہ کاش ایسے تر دماغ پاکستان میں کچھ مقام بنا سکتے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آغا صاحب مرحوم اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پاکستانی غیر ملکوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ یہاں ہمارا سہارا بنتے رہے ہیں۔ جب بھی ہم نے حب الوطنی کے جذبے سے معمور تارکینِ وطن کے سامنے لمبی تقریریں کیں‘ تو سب کچھ سننے کے بعد‘ سب یہی کہتے کہ آپ نے وہاں جا کر کیا کر لیا ہے؟ اس کا جواب تو اس بات پر منحصر ہے کہ آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں اور کہاں آپ اپنے خواب پورے کر سکتے ہیں۔ کپتان کی حالیہ تقریر اسلام آباد کے مضافاتی دیہات میں ریڈیو پر سنی تو بہت سی یادیں‘ سیاسی مباحث اور فکری تحریکوں کی تاریخ ذہن میں بجلی کے کڑاکے کی طرح چھوڑ گئی۔ ہم پاکستان‘ اس آزاد ملک کی پہلی نسل ہیں۔ میرے جیسے دیہاتی پر اس ملک کا بڑا احسان ہے۔ تعلیم دی‘ پرائمری سے جامعہ پنجاب تک تقریباً مفت۔ شعور‘ آزادیٔ فکر‘ شناخت‘ عزت و مقام عطا کیا۔ اس کو بہتر کرنے کی ہماری فکری اور علمی جدوجہد یہیں ہو گی۔ تین مارچ کے سیاہ دن کی شام چند دوستوں نے بار بار استفسار کیا: اب کیا ہو گا؟ دیکھا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا باکردار سابق وزیر اعظم کیسے خفیہ خفیہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کچھ تو خاکسار پر چڑھ دوڑے‘ قریب ہوتے تو شاید میں حملے کی زد میں آ جاتا‘ گرج کر بولے: آپ کون سی جمہوریت کی بات کرتے ہیں‘ یہ جمہوریت ہے تو پھر ”غبوریت‘‘ کیا ہوتی ہے۔ آپ کی آسانی کے لیے بتا دوں کی پہلے دو حروف غبن سے لئے گئے ہیں۔ سچی بات بتائوں‘ ان کے دکھ میں ایک لمحے کے لیے بھی میں شریک نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کچھ کر سکتے ہیں تو کریں‘ خموش‘ کنارے پہ بیٹھے‘ تماشا دیکھنا ہے تو یہ کھیل نصف صدی سے کھیلا جا رہا ہے۔ کپتان کی بات اور ہے۔ کہتا ہے: میدان میں نکلا ہوں‘ آخری گیند تک کھیلوں گا۔ یہ ہوئی نا بات! نا انصافی‘ ظلم‘ لوٹ کھسوٹ معاشرے میں ہو رہا ہو‘ اور کوئی کہے کہ میرا کیا‘ مجھے تو کچھ نہیں ہوا‘ تعلقات وسیع ہیں‘ کچھ درجے اوپر ہوں اور با اثر ہوں‘ میں تو یہ تماشا ہی دیکھوں گا‘ تو پھر وہ دن دور نہیں‘ جب ظلم کی سیاہی آپ کے سفید لباس کو داغ دار کر ڈالے گی۔
کپتان صاحب تو پُر امید ہیں کہ وہ پاکستانی سیاست کا رنگ بدل ہی ڈالیں گے۔ میری تائید شامل ہے۔ کل نہیں آج ہی کریں‘ مگر اب اس ”جھٹکے‘‘ کے بعد دو ہی راستے ہیں۔ ایک نظریاتی اور دوسرا مصلحت کیشی وال۔ یہ دن بھی اس لیے دیکھا کہ حکومت بنانے کی خواہش نے ماضی کے ”نامور‘‘ کرداروں اور مفاد پرست سیاسی گروہوں کے ساتھ اتحاد پر مجبور کیا۔ اسی راستے پر چلے تو کچھ نہیں بدلے گا‘ آپ کے لوگ بکتے رہیں گے‘ منڈیاں لگتی رہیں گی۔ ”غبوریت‘‘ والے تو اڑھائی سالوں سے آپ کا منہ چڑا کر کہہ رہے ہیں کہ پکڑ سکتے ہو تو پکڑ لو۔ احتساب کسی اور کی ذمہ داری ہے تو پھر آپ کیسے پکڑیں گے؟ نظامِ سیاست اس وقت تو ان کے ہاتھوں میں یرغمال ہے‘ جنہوں نے سینیٹ کے الیکشن میں ہاتھ کیا۔ ہم صرف رودادِ چمن کے قصے کہانیاں لکھیں گے۔ دیکھیں کپتان صاحب کیا کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author