نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جیالوں اور کامریڈوں سے ایک نشست||حیدر جاوید سید

ان حالات میں بھی جو سیاسی کارکن دستیاب ہیں وہ غنیمت ہیں قیادتیں انہیں مال غنیمت نہ سمجھیں بلکہ ان کے تعاون سے نچلی سطح تک مکالمہ کو رواج دیں تاکہ ایک بار پھر نظریاتی سیاست کا دور واپس آسکے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے نوجوان جیالوں دانیال ایچ گھلو، شہزاد شفیع، سید کرار حیدر اور تین عدد کامریڈوں، کامریڈ دلاور عباس صدیقی، عامر واہگہ اور منیر الحسینی کے ساتھ ایک طویل نشست جمی۔ ملکی سیاست کی پچھلی پانچ ساڑھے پانچ دہائیوں کے حالات، درپیش مسائل، پیپلزپارٹی کل، آج اور مستقبل کے ساتھ کئی موضوعات پر دو اڑھائی گھنٹوں سے زیادہ تبادلہ خیال ہوا۔
دانیال گھلو اور شہزاد شفیع پی پی پی کی نئی نسل کے وہ متحرک جیالے ہیں جو پارٹی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے گلگت بلتستان سے ملیر تک جاپہنچتے ہیں۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں۔ اپنی جماعت اور قیادت کے ساتھ انکا اخلاص اور یہ فہم کہ پیپلزپارٹی چند کمزوریوں کے باوجود دستیاب سیاسی جماعتوں میں بہتر جماعت ہے لائق تحسین ہے۔
سیاسی کارکنوں کے قریب المرگ کلچر کے موسموں میں پی پی پی یا کسی اور جماعت کے پاس حقیقی سیاسی کارکنوں کا ہونا خوش آئند بات ہے۔ گزشتہ شب کی محفل میں بھی یہی عرض کیا تھا کہ 1979ء کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی کارکنوں کے کلچر کو برباد کرنے کی سازشیں رچائی گئیں اسی بدولت سیاسی کارکنوں کی بجائے آج ہر طرف نالی موری کے ٹھیکیداروں کے غول دندناتے پھرتے ہیں
ان حالات میں بھی جو سیاسی کارکن دستیاب ہیں وہ غنیمت ہیں قیادتیں انہیں مال غنیمت نہ سمجھیں بلکہ ان کے تعاون سے نچلی سطح تک مکالمہ کو رواج دیں تاکہ ایک بار پھر نظریاتی سیاست کا دور واپس آسکے۔
شہزاد شفیع کے ایک سوال پر عرض کیا کہ
جماعت اسلامی اڑھائی دہائیوں سے پراپرٹی ڈیلروں اور اشتہاری کمپنیوں کے مالکان کے قبضہ قدرت میں ہے۔ معاشرے میں پھیلی تنگ نظری کے باوجود ایک طالب علم کے طور پر یہ دیکھ اور سمجھ رہا ہوں کہ آنے والے برسوں میں مذہب و عقائد کے نام پر سیاست کرنے والوں کی اہمیت کم سے کم ہوتی چلی جائے گی۔ وجہ یہی ہے کہ لوگ بلاوجہ کی نفرتوں، حسد، فتوئوں سے پیدا شدہ صورتحال سے تنگ آچکے ہیں۔
سوال یہ تھا کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں زوال کا شکار کیوں ہوئی۔ کیا واقعی یہ زرداری کی وجہ سے ہوا یا کچھ اور معاملات ہیں؟
عرض کیا زرداری کو پنجاب میں پیپلزپارٹی کے زوال کا ذمہ دار وہی قرار دیتے ہیں جو 2008ء سے 2013ء کے درمیان روٹیاں توڑتے، کماتے، ملازمتیں فروخت کرتے اور مستحق کارکنوں کے لئے دی گئی امدادیں اور سی این جی رکشے اپنے پیٹ کے دوزخ میں ڈال گئے اور پھر مفادات کی گیم میں دوسری پارٹیوں میں چلے گئے ہاں ایک طبقہ ریاست اور اس کے حواریوں کے بدترین پرپیگنڈے کا شکار ضرور ہوا اس پروپیگنڈے کا جواب کس نے دینا تھا؟ زرداری نے یا پی پی پی پنجاب نے کیونکہ پروپیگنڈے کا مرکز تو پنجاب ہی تھا۔ میری دانست میں روٹیاں توڑنے کمانے اور امدادیں ہڑپ کرکے سیاسی ہجرت کرجانے والے پیپلزپارٹی کے اصل مجرم ہیں۔ یہی لوگ سوشل میڈیا پر بدزبانیوں میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان میں عمومی مزاج یہ ہے کہ فرقہ اور جماعت تبدیل کرنے والے شدت پسندی کے مظاہرہ سے نئی جگہ وفاداریاں ثابت کرتے ہیں یہی ہمارے چار اور ہورہا ہے۔ البتہ یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ذرائع ابلاغ کے جن وائسرائوں، چودھریوں اور پھنے خانوں کے پی پی پی نے اپنے دور میں پیٹ بھرے وہ آستین کا سانپ ثابت ہوئے اب بھی جن لوگوں پر واری صدقے ہوئے جارہا ہے وہ سول سپر میسی کی محبت کے اسیر ہیں۔
یہ بھی عرض کیا کہ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو توڑنے میں آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کا ہمیشہ بنیادی کردار رہا ہے اس ضمن میں ایک مذہبی جماعت سے ریاست کا معاملہ طے کرنے کی کوششوں کا ذکر کیا۔ ناکامی پر اس جماعت کے بطن سے نئی جماعت تخلیق کرلی گئی۔ جیسے جونیجو کی مسلم لیگ سے فدا لیگ اور فدا لیگ سے نون لیگ تخلیق کی گئی پھر نون سے ہم خیال برآمد کئے گئے جو آگے چل کر ق لیگ کی صورت میں مشرف کے دسترخوان پر دیکھائی دیئے۔
پیپلزپارٹی پیٹریاٹ بھی ایک ایسی ہی تخلیق تھی۔ کوششںیں اب تھم اس لئے گئی ہیں کہ محفوظ راستے کی ضرورت ہے۔ مسائل گھمبیر ہیں حالات ابتر۔ ریاست کو تہتر سال میں پہلی بار جن حالات کا سامنا ہے ان کی وجہ سے اب یہ سوچا جارہا ہے کہ پسپائی اختیار کرلی جائے۔ اس سوچ کے پیچھے جوبائیڈن انتظامیہ کی نئی پالیسی کے ساتھ چین بھی ہے جو صاف لفظوں میں کہہ چکا کہ ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد سازی کے لئے اقدامات کیجئے۔
دانیال گھلو پوچھ رہے تھے سرائیکی قوم پرست عوامی پذیرائی سے کیوں محروم ہیں حالانکہ سرائیکی مسئلہ پر ہر شخص کلیئر ہے؟
عرض کیا قوم پرست جماعتوں کو عوامی سیاست کے تقاضے سمجھنا ہوں گے قوم پرستی کی سیاست شخصیت پرستی نہیں وسیب پرستی سے عبارت ہوتی ہے۔ ثانیاً یہ کہ قوم پرستوں کو چاہیے کہ وہ خود کو عوامی اور شعوری طور پر اتنا منظم کرلیں کہ ملک گیر سیاسی جماعتیں ان سے تعاون کی طلب گار ہوں۔
یہاں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والا معاملہ ہے۔ اس کے باوجود قوم پرستوں نے اب تک جتنا کام کیا وہ لائق تحسین ہے ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ پی پی پی کے نوجوانوں کو انہیں اپنا حریف سمجھنے کی بجائے فطری حلیف سمجھنا ہوگا۔ خامیاں خوبیاں سب میں ہوتی ہیں، ہوتی ہیں تو انسان ہیں ورنہ فرشتے نہ ہوتے۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author