نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا لالی پاپ بھی واپس||سارہ شمشاد

اس سے پہلے کہ معاملات مزید تلخ ہوں اور عوام حکومت کے اعلانات پر یقین کرنا چھوڑدے، حکومت اس ضمن میں ضروری قانون سازی فی الفور کرکے ختم کئے جانے والے محکموں کو فی الفور بحال کرکے فعال بنائے وگرنہ حکومت کو آئندہ الیکشن میں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں سیکرٹری کا عہدہ ختم کردیا گیا، نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب زاہد زمان اختر کو تبدیل کردیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق افسران کی جانب سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کی تعیناتی میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جس کے بعد جنوبی پنجاب سیکرٹری میں کام تقریباً رک گیاہے۔دفاتر کی کمی سے پہلے ہی یہ مسئلہ سنگین ہوتا جارہا تھا۔ چند روز قبل جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے 7محکمے ختم کرنے کی خبریں بھی سننے کو مل چکی ہیں۔ اگر درج بالا حقائق درست ہیں تو یہ جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ سنگین ترین زیادتی سے کم نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب سرائیکی وسیب کے عوام علیحدہ صوبے کی تکمیل کے دیرینہ خواب کو سچ ہوتا دیکھنے کے لئے بے تاب تھے مگر افسوس کہ حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھاگئے۔ جنوبی پنجاب کے ساتھ موجودہ حکومت جو کھلواڑ کررہی ہے وہ تو شاید سابقہ حکومتوں نے بھی کبھی نہیں کیا کہ پہلے تو یہاں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا اعلان کیا پھر دو سیکرٹریٹ کی بات کی اوراب یکدم 7 اہم محکموں کو یکسر ہی ختم کردیا گیا جس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ حکومت نے بستی کو بسنے سے پہلے ہی اجاڑ دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے 2018ء کے الیکشن میں حکومت میں آتے ہی 100دن میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن صوبے کا قیام تو نہیں ہوا بلکہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کرنے کے اعلان کو ہی سرائیکی وسیب کی عوام نے خوب جانا اور اس ضمن میں 20محکموں کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی اور دیگر افسران کی تقرریاں کی گئیں تاہم رواں ہفتے اچانک ہی وہاں تعینات کئے گئے 17محکموں کے سیکرٹری لاہور بھیج دیئے گئے اور یوں یہ محکمے فعال ہونے سے قبل ہی غیرفعال کردیئے گئے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے رولز آف پروسیجرز بنائے بغیر جنوبی پنجاب سیکرٹریوں کی تقرریاں ہونے سے وہ سرکاری اور قانونی امور انجام نہیں دے سکتے تھے اور اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پہلے قانون سازی کی جائے گی پھر دوبارہ تقرریاں کی جائیں گی۔ ہم پہلے ہی اس سطور کے ذریعے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کو عوام کو لالی پاپ دیئے جانے سے تشبیہ دے چکے ہیں اوراب یہی بات زبان زدعام ہے کہ اگر حکومت جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام میں ہی سنجیدہ نہیں تھی تو پھر عوام کے جذبات کے ساتھ کیونکر کھیلا گیا۔ پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون کی چیئرپرسن زینب عمیر کا کہنا ہے کہ حکومت نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں 20محکمے قائم کرکے سیکرٹری تعینات کئے لیکن رولز آف پروسیجرز بننے کے باعث وہ سرکاری امور انجام دینے سے قاصر تھے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھااور ابھی تک اس حوالے سے پوری طرح قانون سازی نہیں کی گئی تھی اس لئے باامر مجبوری ایسا کرنا پڑا۔ اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق ترجمان پارلیمانی سیکرٹری ندیم قریشی کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ ان کی حکومت جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے سنجیدہ ہے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے لئے محکموں کا 7،7برس کا ریکارڈ لاہور سے لانا تھااور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن جب ارادے پختہ ہوں تو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ سے ساڑھے 4کروڑ عوام کو فائدہ ہونا ہے اس لئے حکومت کی جانب سے یہ جواز کہ قانون سازی کی پیچیدگی کی بنا پر 7محکموں کو ختم کیا گیا اس پر کوئی بھی ذی شعور یقین کرنے کیلئے اس لئے تیار نہیں ہے کہ حکومت کو اس ضمن میں پہلے نیا پیپر ورک مکمل کرنا چاہیے تھااور جو حکومت اڑھائی برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال کوئی قانون سازی نہیں کرسکی ہے تو آئندہ کیا کرے گی۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکمران جماعت کی جانب سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے غیرسنجیدگی کے مظاہرہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اسے بےاختیار رکھنے کی پہلے دن سے ہی شعوری کوشش کی گئی اسی لئے تو یہاں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، خزانہ، ثقافت جیسے اہم محکمے نہ بناکر بے اختیار رکھا جارہا تھا۔
ماضی میں جنوبی پنجاب کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک روا رکھا گیا اور اب بھی حقیقت یہی ہے کہ منہ زور بیوروکریسی اور طاقتور طبقہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے شدید مخالف تھے اسی لئے تو یہ سب کچھ ہوا۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ حکومت کے اس عمل سے جہاں علاقے کی محرومیوں میں اضافہ ہوگا وہیں 7دہائیوں سے غربت زدہ چہروں کے اندر پکنے والے لاوے کے پھٹنے کا بھی امکان ہے جس سے ملک دشمن طاقتیں بھی فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔ اگرچہ بعض قوم پرست اسے ایک لسانی مسئلہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ خود کو وسیب کا نمائندہ کہلوانے والی قوم پرست جماعتوں کو اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں ہوئی۔ درحقیقت یہی وہ کڑوا سچ ہے کہ جس کی بنا پر ہمیشہ یہاں کے فنڈز لاہور، ساہیوال اور دیگر بڑے شہروں میں منتقل ہوتے رہے ہیں کیونکہ جب تک اس خطے کے لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند نہیں کریں گے اس وقت تک معاملات درست نہیں ہوسکتے۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ سے سیکرٹری خزانہ کے عہدہ کو ختم کرنے کا مقصد وسیب کو ٹکے ٹکے کیلئے لاہور کا ماتحت بنانا تھا۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ حکومت جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ختم کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے وگرنہ آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کا وسیب سے مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ مسلم لیگ ن چونکہ جنوبی پنجاب صوبے کی شروع سے ہی مخالف رہی ہے تو آج ان کی اس حوالے سے صوبائی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے ضروری ہے کہ حکومت بالخصوص عمران خان جو صوبوں کو مضبوط کرنے کے شروع سے ہی خواہاں رہے ہیں اس معاملے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں کیونکہ اگر جنوبی پنجاب کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کو ختم نہ کیا گیا تو اس خطے کے عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے سڑکوں پر آنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اس سے پہلے کہ یہاں کی عوام سے جینے کی امید چھین لی جائے حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے اور اگر حکومت جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے حوالے سے سنجیدہ نہیں تھی تو پھر اس کو عوام کو لارے بھی نہیں دینے چاہئیں تھے۔ ادھر سرائیکی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بھی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے خاتمے کے حوالے سے احتجاج کی کال نہ دینے پر عوام میں ان کی اصلیت کھل گئی ہے کہ یہ نام نہاد جماعتیں صرف اخبارات میں بیانات دے کر اپنی فوٹو چھپوانے کی خواہش مند ہیں انہی میں طارق بشیر چیمہ بھی شامل ہیں جنہیں اس خطے کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں۔ اس سے پہلے کہ معاملات مزید تلخ ہوں اور عوام حکومت کے اعلانات پر یقین کرنا چھوڑدے، حکومت اس ضمن میں ضروری قانون سازی فی الفور کرکے ختم کئے جانے والے محکموں کو فی الفور بحال کرکے فعال بنائے وگرنہ حکومت کو آئندہ الیکشن میں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author