نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کا اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ||سارہ شمشاد

دھرنے کو ختم کروانے کے گارنٹر چودھری برادران ہی تھے۔ عمران خان کو ان تمام کڑیوں کو ملاکر دیکھنا چاہیے، معاملات کس نہج پر جاچکے ہیں، خودبخود سب کچھ سمجھ آجائے گا۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان سیاست کی ہنگامہ خیزیوں میں ہر گزرنے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، ابھی اپوزیشن سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی جیت کا جشن ہی منارہی تھی کہ یکایکا وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کرکے اسے ایسا ان سوئنگ یارکر مارا ہے کہ پی ڈی ایم کیلئے گیلانی صاحب کی جیت کی خوشی ہوا ہو گئی۔ بلاشبہ یوسف رضا گیلانی کی جیت سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی تھی کیونکہ جب معاملہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں کا سا ہو تو پھر غیروںسے کیا گلہ کرنا۔ تحریک انصاف کے 10 سے زائد اراکین کی ضمیر فروشی نے وزیراعظم کو بڑا سیٹ بیک دیا۔ اگرچہ ہم ان سطور کے ذریعے کئی مرتبہ خان صاحب کو اپنی صفوں میں دیکھنے کی گزارش کرچکے تھے لیکن خان کو اپنے ساتھیوں پر خاصا یقین تھا مگر اب جب حالات نے پلٹا کھایا تو ضمیر فروش یہ مقابلہ جیت گئے اور یوں عمران خان کے اس موقف پر ایک بار پھر مہر ثبت ہوگئی ہے کہ سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری کی بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کروائےجانے چاہئیں کیونکہ جب تک صاف و شفاف الیکشن منعقد نہیں ہونگے اس وقت تک حالات میں درستگی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یاد رہے کہ پی ڈی ایم کے امیدوار سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جنرل سیٹ پر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی ہے۔ ادھر اپوزیشن نے وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کی بجائے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی پاکستان پیپلزپارٹی نے سینٹ میں اپنا چیئرمین لانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
سیاست کے بھونچال نے عوام کو چکراکر رکھ دیا ہے کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے ملک بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ عوام تو پہلے ہی حالات کی تلخی کا شکار ہیں اس لئے سیاست کی گھمبیر صورتحال میں ایسا پھنسادیا ہے کہ اب انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔اگرچہ تحریک انصاف کی جانب سے سینٹ انتخابات میں گیلانی کی جیت کو ووٹ کی نہیں بلکہ نوٹ کی جیت قرار دیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن پھر کس مرض کی دوا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذمہ صرف ایک ہی کام ہے اور وہ صاف و شفاف الیکشن کا انعقاد مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج تک جتنے بھی الیکشن منعقد ہوئے سب کی شفافیت پر ہمیشہ ایک سوالیہ نشان ہی لگا اور ہمیشہ جیتنے اور ہارنے والی دونوں پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ اگرچہ سینٹ میں پی ٹی آئی 26نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر اور پی پی 20نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم گیلانی کی جیت نے حکومت کو ایک ایسا دھچکا لگایا ہے کہ جس سے اپوزیشن کا موقف کسی حد تک درست محسوس ہوتا ہے کہ اب عوام کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے اپنے اراکین بھی اس کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اس لئے حکومت کو گھر چلے جانا چاہیے۔ ادھر یہ بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا یہ پلان تھا کہ سینٹ الیکشن جیت کر اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی اور پھر الیکشن کرواکر دوبارہ حکومت بنانے کی کوشش کی جائے گی لیکن وزیراعظم عمران خان کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے ہیں کہ پی ڈی ایم نے ایک بڑے حکومتی وزیر کی وکٹ اڑادی جس سے سب اچھا نہیں کے بیانیے کومزید تقویت ملتی ہے اور اب جبکہ حکومت کی جانب سے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اپوزیشن پر ووٹ چور کے تابڑتوڑ حملے کئے جارہے ہیں لیکن حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان کو اپنا آفس ان آرڈر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اب تو سپیکر قومی اسمبلی نے ہفتے کو اجلاس بلالیا ہے جس میں وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ بھی لیا جائے گا اب یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ وزیراعظم عمران خان کا اعتماد کا ووٹ لینے کا دلیرانہ فیصلہ ان کی حکومت کو مستحکم کرنا ہے یا نہیں۔
تاہم عمران خان نے ہفتے کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے فیصلے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اگر15/20 حکومتی اتحادیوں نے ووٹ بیچ کر نہیں بلکہ ضمیر و نظریات کی بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا ہے تو پھر انہیں چاہیے کہ اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہفتہ کے روز عمران خان کے خلاف اسمبلی کے فلور پر اعتماد کا ووٹ دینے سے انکار کریں بصورت دیگر عوام کو ووٹ کی نیلامی کنفرم ہوجائے گی۔ پاکستانی سیاست کا موڈ چونکہ اب بدل چکا ہے اور تحریک انصاف کے اپنے اراکین بھی نوٹوں کی چمک دیکھ کر اس اصول پر عمل پیرا ہیں کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی تو اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ایک بات تو سچ ثابت ہوگئی ہے کہ آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے حکومت کو ہر قدم انتہائی سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔
اب جبکہ شہراقتدار میں سیاسی درجہ حرارت بہت بڑھ گیا ہے اور قومی حکومت بنانے کے حوالے سے بھی بہت سی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں اور چودھری نثار کی پنجاب میں دبنگ انٹری کے قصے بھی زبان زد عام ہیں۔ اب ان خبروں میں کتنی صداقت ہےیہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گالیکن ایک بات تو طے ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے جس کی پردہ داری ہے اسی لئے تو کہا جارہاہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے جبکہ تحریک انصاف کے بارے نرم گوشتہ رکھنے والے تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خان کو آسان لینا اپوزیشن کی بڑی حماقت ہوسکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ایک مرتبہ پھر بھرپورجارحانہ انداز میں نظر آئیں۔ اگرچہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ جس مقصد کے لئے آئے تھے وہ پورا کرچکے ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری 20ووٹ کم ملنے کا گلہ بھی کررہے ہیں۔اس لئے اگر سینٹ کی سکورٹیبل کو دیکھا جائے تو بہت سے اگر مگر پیدا ہوتے ہیں لیکن ابھی اس چکر میں پڑنے کی بجائے حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر تمام تر توجہ صرف کرنی چاہیے۔عمران خان جو ایک نظریے کو لے کر سیاست میں آئے تھے اور بطور کھلاڑی بھی نیوٹرل ایمپائر اور دبنگ انٹری کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، کے بارے میں توقع کی جارہی ہے کہ وہ بڑے آرام سے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیں گے۔ حفیظ شیخ کو اسلام آباد کی نشست سے سینٹ کا الیکشن لڑواکر درحقیقت حکومت نے ایک بڑی غلطی کی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی جی حضوری اور مہنگائی کا بدترین عذاب اور ٹیکسوں کی بھرمار کے ساتھ ساتھ عوام کے علاوہ تحریک انصاف کے اپنے اراکین بھی ان کی کارکردگی سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے بلکہ ڈاکٹر عامر لیاقت تو برملا حفیظ شیخ کو سینٹ انتخابات میں ووٹ نہ دینے کی بھی بات کرچکے تھے اس لئے وزیراعظم عمران خان جوکہ آج بھی دنیا کے بہترین کپتان شمار کئے جاتے ہیں انہیں تمام تر پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہیے اور ناکامی کا سبب بننے والی وجوہات پر توجہ دینی چاہیے تاکہ آئندہ الیکشن میں عوام کی عدالت میں جانے کے قابل ہوسکیں۔
اگرچہ سینٹ الیکشن میں ترین فیکٹر نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے لیکن مسلم لیگ ق کے ’’کردار‘‘ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو ختم کروانے کے گارنٹر چودھری برادران ہی تھے۔ عمران خان کو ان تمام کڑیوں کو ملاکر دیکھنا چاہیے، معاملات کس نہج پر جاچکے ہیں، خودبخود سب کچھ سمجھ آجائے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author