رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کا نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں والء ماسوا، نائب اللہ فی الارض
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
انتہا پسند، آر ایس ایس اور بھارتی جنتا پارٹی بھارت کو زرد پتوں کا بن بنا رہی ہیں۔کسانوں کا غم آج کا غم ہے۔سرمایہ دار مذہبی برانڈز کی مدد سے منڈیوں، کانوں اورمُلکوں پر قبضہ کرتے ہیں۔سناتن دھرم اور اسلام کو چھوڑ کر لوکل لوگوں کو گلوبل مفادات کے غلام بناتے ہیں۔یہ نیا سامراج ہے۔کولونیل ازم کے سانپ نے نئے موسم میں نیا جنم لیا ہے۔انسان دوستی کی تسبیح پڑھتا ہے۔ غریبوں کا خون پیتا ہے۔عرب و عجم سے افغانستان اور افریقہ تک سرمایہ داروں کے گماشتے ظلم کرتے ہیں۔مگر ہم نہیں سمجھتے!بھارت میں نریندرا مودی سرمائے کا نیا چہرہ ہے۔ چائے بیچنے والا بچہ بڑا ہو کر نیو کولونیل ازم کا اوتار ہے۔ بھارت سرکار نے 2020 میں کسانوں کے لئے تین نئے قوانین منظور کئے ہیں:
1 )Farmers’ Produce Trade and Commerce Act, 2020 ;
2 )Farmers'( Empowerment and Protection)Agreement of Price Assurance, 2020;
3 )Farm Services Agreement, 2020.
سرکار کا دعوی یہ ہے کہ یہ قوانین کسانوں کی بھلائی کے لئے لائے گئے ہیں مگر کسان اس میں برائی دیکھتے ہیں۔بھارت کسان اندولن کے رہنما کہتے ہیں کہ ان کی سرکار، سامراج، سرمایہ دار اور برلا ٹاٹا کی ایجنٹ ہے ۔کسانوں کے کرشماتی اور جذباتی لیڈر راکیش ٹکیت کہتے ہیں کہ اس سے نہ صرف کسان بلکہ کتے اور بندر بھی مر جائیں گے۔
بھارت کی آبادی 130 کروڑ ہے اور آبادی کا کوئی پچاس فی صد زراعت سے وابستہ ہے۔ 85 فی صد کسان پانچ ایکڑ یا اس سے کم کے مالک ہیں۔پاکستان کی طرح حکومت فصلوں کی کم از کم قیمت طے کرتی ہے اور کسانوں کا خیال ہے کہ حکومت ایم ایس پی ختم کرنا چاہتی ہے۔نئے قوانین زراعت کو آزاد منڈی سے جوڑتے ہیں اور ہزاروں چھوٹے آڑھتیوں کی جگہ چند بڑے سرمایہ داروں کو فصلوں کی قیمتوں کے تعین اور خریداری پر اجارہ داری کا موقع دیتے ہیں۔یہ قوانین افسروں کو بھی نیک نیتی سے کئے گئے جرائم پر تحفظ دیتے ہیں اور افسر نوآبادکاری پس منظر اور میلانات کی وجہ سے عوام دشمن ہیں۔جبکہ سرمایہ دار کا ایمان منافع ہے۔سرکار ان قوانین کو عوام دوست کہتی ہے جبکہ کسان بڑے کرنسی نوٹوں کے خاتمے ، جی ایس ٹی پالیسی اور لاک ڈاؤن کی حکومتی پالیسیوں کے تباہ کن unintendedنتائج سے واقفیت کی بنیاد پر حکومت پر اعتماد کو تیار نہیں۔حکومت کی نااہلی کے تذکرے عام ہیں۔لال قلعے پر جھنڈا اور عالمی سیلیبریٹیز کے بیانات سے مودی سرکار کو خفت اٹھانی پڑی ہے۔سینکڑوں بے کس کسانوں کا خون سرکار کی گردن پر ہے۔ 248 قتل ہونے والے کسانوں میں سے 202 بھارتی پنجاب اور لگ بھگ بیس کے قریب ہریانہ کے تھے۔نریندرا مودی کو 2024 کے انتخاب سے پہلے آگ کے دریا کا سامنا ہے اور وہ ایک جذباتی ،mistake prone ، آمرانہ اور بنیاد پرست رہنما کے طور پر بھارتی غریبوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
کسان زمین سے پھوٹتا ہے۔وہ جانور اور فصلیں اگاتا ہے اور کھیتی کو امید اور صبر سے سینچتا ہے۔جنتا پارٹی کی سرکار بے صبری ہے۔کسان سماج کی معیشت کا وہ پرزہ ہے جو سب کچھ پرچون کے حساب سے خریدتا ہے اور تھوک میں بیچتا ہے۔مودی سرکار کے تین نئے قوانین کسان کی امید کو بڑے سرمایہ دار کے پاس گروی رکھتے ہیں ۔کسان لیڈر ٹکیت کے لفظوں میں سرکار روٹی کو تجوری میں بند کرتی ہے۔ "نئے قوانین سے کسان اور زراعت کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔آنے والا وقت بھوک کے حساب سے فصل کی قیمت طے کرنے والا ہوگا۔”بھوک کی شدت سے منڈی میں روٹی کی قیمت طے ہوتی ہے۔طلب اور رسد کا قانون منڈی کا صحیفہ ہے۔ہل کی گدگدی سے زمین کو مسکرانے پر مجبور کرنے والے کسان کو بھارت سرکار رلاتی ہے۔ویسے تو حاسد کسان قابیل اساطیری قبضہ گیر تھا مگر اس سے امید چھیننے والا نریندرا مودی سرمائے کا دیوتا اور248کسانوں کا قاتل ہے۔ہمارے ہاں انسان، زمین پر خدا کا نائب ہے۔خدا کے نائب کو پولیس اور پٹوار مارتے ہیں۔نائب اللہ فی الارض فقط عزت کا "ٹُکر” اور رہنے کی "نُکر” مانگتا ہے۔فیض صاحب کی ایک پنجابی نظم آدمی کا المیہ بیان کرتی ہے:
ربّا سچّیا توں تے آکھیا سی
جا اوئے بندیا جگ دا شاہ ہیں توں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنگا شاہ بنایا اِی رب سائیاں
پَولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے
مینوں شاہی نئیں چاہیدی رب میرے
میں تے عزّت دا ٹُکّر منگناں ہاں
مینوں تاہنگ نئیں، محلاں ماڑیاں دی
میں تے جِیویں دی نُکّر منگناں ہاں
پوسٹ ماڈرن آدمی کا دکھ گوتم سے بڑا ہے۔نصیر احمد ناصر کی نظم آج کے آدمی کا دکھ بیان کرتی ہے۔”دکھ برگد سے بڑا ہے "جیسی چونکا دینے والی لائن سے شروع ہونیوالی نظم آج کے انسان کے دکھوں کا احاطہ کرتی ہے۔کپل وستو کے شہزادے گوتم نے غزہ ، افغانستان، عراق ، شام ،کراچی کی بوری بند لاشیں، کوئٹہ کے ہزاروں کے لاشے ، ایلان کردی ، افریقی ماوں کی دودھ کے بغیر ڈھلکتی چھاتیاں، اے پی ایس کے بچوں کے کفن، کوثر بانو کا سانحہ، مظفر نگر ریلوے اسٹیشن پر ماں کے کفن سے کھیلتا بچہ ، عظیم جنگوں کا قتل ِعام اور بھارتی کسانوں کی لاشیں نہیں دیکھی تھیں۔گوتم آج ہوتا تو جدید انسان کے دکھ کے اظہار کے لئے "دکھا” کی بجائے کوئی نیا لفظ ڈھونڈتا۔کارل مارکس کی تاریخ کی نئی تعبیر پڑھتا۔راکیش ٹکیت کی تقریر سنتا، اس کے آنسوؤں سے وضو کرتا۔شاکیہ منی سوچتا کہ سجاتا کی گائیں چارے کے بغیر ہیں، کسان کے چاول سرمایہ دار کے پاس گروی ہیں اور بھوک بڑھ جائے تو اناج کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔دودھ، چاول اور چینی کے بغیر شہر کے جنگل میں سجاتا کھیر نہیں پکاتی، شہر میں مزدوری کرتی ہے۔سڑک پر روڑے کوٹتی ہے!اسلم انصاری سے سکالر اور بے مثال شاعر نے "گوتم کا آخری وعظ” لکھ کر اتھا گت کے فلسفے کو شاعری کیا۔میرے عزیزو، تمام دکھ ہے!اسلم انصاری کے کمال ِفن سے دکھ ایک جمالیاتی تجربہ بن گیا ہے۔آج کا دکھ مگر ماورائے کلام ہے۔ بھارت کا گستاخ ہندی شاعر انشو مالویہ ایک کھردری نظم لکھتا ہے۔آج کے انسان کے دکھ کے لئے گوتم بدھ سے کوئی نیا شبد کھوجنے کا مطالبہ کرتا ہے کہ دکھ کا لفظ آج کے انسان اور بھارتی کسان کے کرب کو بیان کرنے کے لئے نا کافی ہے:
یہ دکھ نہیں ہے اتھا گت
تم نے بیماری دیکھی
تم نے بڑھاپا دیکھا
دیکھی تم نے موت
تم نے قتل نہیں دیکھا
تم نے وشواش گھات نہیں دیکھا
جنتتر کی پیٹھ میں اترتا غداری کا خنجر نہیں دیکھا تم نے
دیکھتے تو اس کے لئے دکھ جیسا
ادھیاتمک شبد نہیں کھوجتے تم
مظفر نگر ریلوے اسٹیشن پر اپنی ماں کے کفن سے کھیل رہا ہے ایک بچہ
یہ دکھ نہیں ہے
ہمارے جیون کے لئے ایک نیا شبد کھوجو بدھ
ہمارے ملک کی روح ہجرت کر گئی ہے
ہمارے ملک کے لئے
ہمارے جیون کے لئے
ایک نیا شبد کھوجو بدھ!!!!
بھارتی سماج کے وجود پر گھاو ہیں اور بھارت کی روح ہجرت کر گئی ہے!!
یہ بھی پڑھیے:
امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر
محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ