نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی سے بلکتے عوام ||حیدر جاوید سید

وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یوٹیلٹی سٹورز پر گھی کی فی کلو قیمت میں 48روپے اور کوکنگ آئل کی قیمت میں 29روپے لٹر اضافے کی منظوری دی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یوٹیلٹی سٹورز پر گھی کی فی کلو قیمت میں 48روپے اور کوکنگ آئل کی قیمت میں 29روپے لٹر اضافے کی منظوری دی ہے۔ دوسری طرف پچھلے ہفتہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں الحمدللہ مزید اضافہ ہوا، 25 اشیاء کی قیمتیں بڑھیں، 8اشیاء سستی ہوئیں اور 18کی قیمتیں مستحکم رہیں۔
روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں پر سوائے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے کسی کو کنٹرول نہیں۔ حکومت ان کے سامنے بالکل بے بس ہے اور رہے عوام تو وہ کس کھیت کی مولی ہیں۔
عوام کو تو حکومت نے کبھی منہ نہیں لگایا۔ منافع خور اور ذخیرہ اندوز انہیں کیا جانیں۔
یکم دسمبر سے یکم فروری کے درمیان بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں متعدد بار اضافہ ہوا۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 3روپے 90پیسے فی یونٹ اضافہ آئی ایم ایف سے قرضہ پروگرام کے معاملات طے کرنے کے لئے کیا گیا۔ عالمی ادارے نے6روپے فی یونٹ اضافہ کا کہا تھا۔ بجٹ سے قبل حکومت کو اپنے وعدے کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 2روپے 10پیسے کا مزید اضافہ کرناہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بجلی کی مجموعی سالانہ پیداوار پر 560ارب کے قریب اخراجات آتے ہیں جبکہ صارفین سے بلوں کی مد میں 9سو ارب سے زائد رقم وصول کی جاتی ہے اس میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے ماہوار بھتہ اور ٹیکسز وغیرہ شامل نہیں۔
پٹرول پر فی لٹر حکومتی ٹیکس 50 روپے کے قریب ہے۔ یہاں یاد آیا ایک وزیر ہیں اسد عمر، وہ ماضی میں کہا کرتے تھے پٹرول 47روپے لٹر فروخت کیا جاسکتا ہے۔ اللہ خوش رکھے آج کل پتہ نہیں صحرائے گوپی گئے ہوئے ہیں کہ انہیں پٹرول کی قیمت اور عوام کے حالات کا پتہ نہیں چل رہا۔ برائلر مرغی کا گوشت 320 روپے کلو تک پہنچ گیا ہے۔
ایک ستم اور ہے وہ یہ کہ ٹماٹر کی تازہ فصل پر کسان کو پانچ کلو ٹماٹر کی تھیلی کے 15روپے مل رہے ہیں یعنی3روپے کلو جبکہ مارکیٹ میں ٹماٹر 60سے 70روپے کلو ہے۔
دو دن قبل مختلف کھادوں کی قیمت میں فی بوری 140سے 180روپے کا اضافہ ہوا یہ اس کے باوجود ہے کہ حکومت کھاد فیکٹریوں کو سبسڈی پر گیس فراہم کرتی ہے۔ گھریلو اور کمرشل صارفین کے لئے گیس کی قیمت بڑھانے کے ساتھ میٹر کرایہ بھی 20روپے ماہوار بڑھادیا گیا ہے۔
چینی 105روپے سے 110روپے کلو ہے 20کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 300روپے سے زائد اضافہ کردیا گیا ہے۔ اچھا یہ اچانک راتوں رات قیمتوں میں اضافے کون کرتا ہے اور کون منظوری دیتا ہے؟
وہ سارے انصارفی جو پچھلے ادوار میں چور چور کا شور مچاتے تھے پارسائوں کے دور میں تلاش کرنے پر بھی نہیں مل پارہے۔ مل جاتے تو ان سے دریافت کرتے حضور اب کون ہڑپ کررہا ہے؟
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ تیس سال تک جہلم نیلم سرچارج کے نام پر لیا جانے والا بھتہ اب نہیں لیا جائے گا۔ وزیراعظم نے یہ فیصلہ اچھا کیا لیکن خزانہ تو خالی ہے اس کا پیٹ بھرنے کے لئے کوئی نیا راستہ تلاش کرلیا جائے گا۔
اگر دعائوں سے راستے بند اور مہنگائی ختم ہوسکتی تو پھر چند عبادت گزار دوستوں سے درخواست کی جاسکتی ہے مگر یہاں معاملہ دعائوں کی منزل سے آگے کا ہے۔
زمینی حقیقت بڑی مختلف ہے اتنی کہ سوچ سوچ کر پریشانی ہوتی ہے۔ مثلاً ارباب اختیار آگاہ ہیں کہ کورونا کی دو لہروں اور چند دیگر مسائل کی وجہ سے پچھلے 12ماہ کے دوران سوا دو کروڑ افراد بیروزگار ہوئے۔ متبادل روزگار کے ذرائع بھی موجود نہیں۔ خزانہ خالی ہے کیونکہ وزیراعظم کے بقول پچھلے چور سب لوٹ کے کھاگئے، اڑھائی سال بعد بھی اگر سابقین کو ہی کوستے رہناہے تو عوام الناس کو ان بزرگوں کے مزارات کا راستہ دیکھایا جائے جہاں لنگر کا انتظام ہوتا ہے۔
مکرر عرض ہے عام آدمی کی زندگی دن بدن مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ قوت خرید آمدنی پر قائم ہوتی ہے اب حالت یہ ہے کہ ماہانہ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔
سفید پوش اور لوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی حالت دن بدن پتلی ہورہی ہے۔ اہل اقتدار کہتے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہے ان کے مخالف پروپیگنڈہ کررہے ہیں جبکہ بازاروں میں دکانداروں سے بھائو تائو کرتے وقت شہریوں کے چہروں کے تاثرات دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ جس بنیادی سوال کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد عبوری ریلیف دیا ہے چاروں صوبائی حکومتیں یہ ریلیف دینے پر آمادہ نہیں۔ ایک ستم یہ بھی ہے کہ پنجاب میں سابق بلدیاتی سکولوں سمیت درجن بھر محکموں کے ملازمین کو کئی کئی ماہ تک پنشن نہیں ملتی مزید ستم یہ ہے کہ صورتحال کے ذمہ داروں کے خلاف آپ بات کرسکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ تقدس مآب لوگ ہیں۔ پچھلے اڑھائی سال میں بڑھتی مہنگائی کا مجموعی حساب یہ ہے کہ اس میں 250 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مقابلتاً اشرافیہ کے طبقات کی مراعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔دیہاڑی دار مزدوروں کی حالت سب سے خراب ہے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ مہنگائی کی بدترین لہر سے پریشان حال شہریوں کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں ثانیاً یہ کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں حالانکہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج یہ سمجھاتے ہیں کہ تبدیلی کے بخار کو اتارنے میں اہم کردار مہنگائی کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کے دن بدلیں گے یا آج سے زیادہ بدتر ہوں گے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ دن بدلیں گے صرف زرداروں کے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author