سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈویژنل انتظامیہ نے خطے کی قدیم تہذیب و ثقافت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے ملتان میں لوک ورثہ میلہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر عملدرآمد کے لئے قلعہ کہنہ قاسم باغ پر تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ کمشنر ملتان ڈویژن جاوید اختر محمود نے لوک ورثہ میلہ کے انعقاد کے لئے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔ لوک ورثہ میلہ منعقد کروانے کا فیصلہ نہ صرف خوش آئند بلکہ خطے کی آبادی کے جذبات کی ترجمانی بھی ہے۔ سرائیکی خطہ کئی ہزار سال کی تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی شناخت رکھتا ہے مگر افسوس کہ اس کی جداگانہ اور منفرد حیثیت کو کبھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج تک ملتان میں جتنی بھی تقریبات منعقد کی گئیں ان میں مقررین صرف روایتی باتیں کرنے پر ہی اکتفا کرتے رہے اس میں ایک بڑی وجہ ان کا بھی اس تاریخی تہذیب و ثقافت سے بےخبر ہونا ہے جس سے معاملات تاحال ڈنگ ٹپائو کی پالیسی کے تحت چلائے جانے کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ تاہم ملتان میں ’’لوک ورثۂ‘‘ میلہ کے انعقاد کروانے کے فیصلے کو تمام حلقوں کی جانب سے سراہا جارہا ہے بلکہ اس خطے کا ہرطبقہ اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں حصہ بقدر جثہ ڈالنے کے لئے بھی تیار ہے جو سرائیکی وسیب کے لوگوں کی اس خطے سے وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں موجودہ حکومت کی سرائیکی وسیب کی جانب خصوصی توجہ دینے کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ علیحدہ دو سیکرٹریٹ کے قیام بارے سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے اسی لئے تو اب ملتان میں 8 سیکرٹریز بھی بیٹھنے شروع ہوگئے ہیں جبکہ چیف سیکرٹری کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ 5دن ملتان میں بیٹھتے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ جنوبی پنجاب میں سیکرٹریٹ کے عملاً فعال ہونے کے حوالے سے کام تیزی کے ساتھ کیا جارہا ہے تاہم دوسری طرف یہ بھی کھلا سچ ہے کہ ابھی اس حوالے سے ایک طویل سفر طے کیا جانا باقی ہے کیونکہ جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ پبلک سروس کمیشن کا قیام ہو یا پھر صوبے کے دارالخلافہ کا معاملہ، اس بارے ابھی تک لوگوں کو کوئی کلیئر بات نہیں بتائی جارہی۔ اگرچہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی تو کئی مرتبہ ملتان کو صوبے کا دارالحکومت بنانے کی بات کرچکے ہیں لیکن علیحدہ صوبے کے قیام کے حوالے سے کوئی آئینی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کروانے کے لئے تاحال پیشرفت سامنے نہیں آئی اس لئے بہت سے لوگ گومگو کا شکار ہیں کہ کہیں اس حکومت کے جاتے ہی معاملات کو پرانی ڈگر پر نہ چلایا جائے اس لئے حکومت کو لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے الے ابہام کو بھی دور کرنے کے لئے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
اب جبکہ حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب میں 2سیکرٹریٹ قائم کئے جارہے ہیں تو کوئی حکومت کو یہ بھی یاد کروائے کہ کئی برس قبل ملتان کو میٹرو پولیٹن سٹی کا درجہ بھی دیا گیا تھا اس پر تاحال عملدرآمد شروع کیونکر نہیں ہوسکا ہے۔ایسا ہونے سے یہاں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے ان کی زندگیوں میں بہتری آئے گی۔ دراصل تمام حکومتوں کی جانب سے جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے بڑے لمبے چوڑے اعلانات تو کئے گئے مگر کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ان پر عملدرآمد کو کسی نے ضروری نہیں سمجھا اسی لئے تو میرا پیارا وسیب محرومیوں کی کتھا بن کر رہ گیا ہے اور کیوں نہ ہو کہ غربت، پسماندگی، بیروزگاری کے گہرے ہوتے سائے اس کے باسیوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھیننے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں مگر اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں انہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی اور آئے بھی تو کیسے کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کے زہر آلود کلہاڑے صبح شام بلاناغہ برسائے جارہے ہیں تاکہ عوام نامی مخلوق اپنی اوقات نہ بھولے کہ ان کی قسمت میں صرف دھکے کھانا ہی ہے۔
جنوبی پنجاب کی تکالیف اور محرومیوں کی لمبی چوڑی داستان میں وڈیرہ شاہی، جاگیردارانہ نظام نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ میرے وسیب میں خطِ افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے یہی نہیں بلکہ بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافے میں بدقسمتی سے میرا وسیب پہلے نمبر پر آتا ہے۔ آج اس کی قسمت کو بدلنے کی تھوڑی بہت کوشش کی جارہی ہے تو اس کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھنا چاہیے کہ چلو کوئی تو ہے جو اس خطے کی خستہ حالی اور بدحالی کو دور کرنے بارے سوچ رہا ہے۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کے ساتھ ہمیشہ ہی سوتیلی ماں سا سلوک روا رکھا گیا ہے اور سیاسی جماعتوں کی یہ ظالمانہ پالیسی آج بھی جاری و ساری ہے اسی لئے تو سرائیکی وسیب سے مسلم لیگ (ن) نے سینیٹر شپ کے لئے کسی کو ووٹ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اگرچہ یوسف رضا گیلانی کو پاکستان پیپلزپارٹی نے ٹکٹ دیا ہے لیکن ان کو اسلام آباد کی نشست سے الیکشن لڑوایا جارہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی صورتحال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے کہ اس نے عون عباس بپی کو ٹکٹ دیا جو انگلی کٹواکر شہیدوں میں نام لکھوانے کا منہ بولتا ثبوت ہونے کے ساتھ موجودہ حکومت کی اس خطے کے لوگوں سے وابستگی کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ سرائیکی وسیب کا جو پارلیمانی اور سیاسی حصہ بنتا ہے اس کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت نے وہ حق دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اب سوال یہ بھی بنتاہے کہ کیا تمام سیاسی جماعتوں کی نظر میں سرائیکی وسیب کا سینٹ انتخابات میں حصہ صرف ایک نشست کا بنتا ہے، سیاسی جماعتوں کا یہ سفاکانہ طرزعمل قابل افسوس، قابل مذمت ہونے کے ساتھ وسیب کی عوام کے لئے ایک ویک اپ کال بھی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی سوچ سمجھ کر اپنے فیصلے کریں۔
اگرچہ چند روز قبل وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بہاولپور میں یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ جنوبی پنجاب کا بجٹ کہیں اور استعمال نہیں ہوگا یہی نہیں بلکہ انہوں نے حکومت کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے اور جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو مکمل طورپر بااختیار بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ وزیراعلیٰ کی تینوں باتیں حکمرانوں کی ڈائریکشن درست سمت ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کو پچھلے ادوار میں سرائیکی وسیب کے جو اثاثے فروخت کرکے لاہور لے جائے گئے ان کی 144ارب کی خطیر رقم بھی وسیب کو واپس دلوانے کیلئے اپنی ذمہ داری گردانیں گے تاکہ یہ رقم اصل حقداروں پر خرچ کی جاسکے۔ تاہم جہاں تک ملتان میں ’’لوک ورثہ‘‘ میلہ منعقد کروانے کے فیصلے کا تعلق ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ خصوصی کمیٹی خطے کے تمام طبقات کے سرکردہ لوگوں بالخصوص دانش ور طبقے کو اعتماد میں لے گی اور اس بات کو مدنظر رکھے گی کہ اس قسم کے تاریخی اکٹھ عوام کی ذہنی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایک کامیاب ’’لوک ورثہ‘‘ میلے کے انعقاد کے بعد وسیب میں دیگر ثقافتی سرگرمیوں کے لئے بھی دروازہ کھل جائے گا اور یوں میرے غریب وسیب باسیوں کو تھوڑا سا ہی سہی ذہنی سکون تو میسر آہی جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر