حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب صورت یہ ہے کہ حال دل بیان کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ کیا کہیں اور کس سے کہیں، چلیں رہنے دیں۔
ان دنوں سوشل میڈیا پر جہیز کے حوالے سے گردش کرتی ایک تصویر کو لے کر دانش کے پھپھولے ’’اُڑائے‘‘ جارہے ہیں۔ کوئی سمجھائے کہ جہیز لینے کی مذمت سے زیادہ اہم بات یہ ے کہ جہیز لیا نہ جائے لیکن اس میں بھی دو پہلو ہیں اولاً یہ کہ والدین حسب حیثیت بچی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ تحائف دیں اور ثانیاً یہ کہ بچی کے والدین کو فرمائشوں ایک کی فہرست تھمادی جائے۔
پہلی بات یہ ہے کہ بیٹی کو رخصت کرتے وقت جو والدین جہیز دیتے ہیں وہ بیٹی کو وراثت میں سے حصہ کیوں نہیں دیتے؟
یہ کیسے فرض کرلیا جاتا ہے کہ جہیز شرعی وراثت کا نعم البدل ہے۔ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ایسا فرض کرنا بذات خود ایک بھرپور جہالت ہے۔
اولاد کی مساوی بنیادوں پر تعلیم و تربیت والدین کی ذمہ داری ہے۔
بیٹی یا بیٹے میں تمیز کرنا اس سے بڑی جہالت۔
63سال کی عمر میں ہم نے ایسے کئی واقعات دیکھے کہ رخصت ہونے والی بٹیی یا بہن سے وراثتی جائیداد بھائیوں کے نام پر لکھوالی گئی ایک دو بار توایسا کرنے والوں سے خود سنا ’’بیٹی تم نئے گھر جارہی ہو خدا کا دیا سب کچھ ہے یہ جائیداد (جتنی بھی ہے) اپنے بھائیوں بھتیجوں کے نام کرتی جاو‘‘۔
ایک بار ایسے ہی موقع پر میں نے اپنے ایک عزیز سے کہا کیوں لکھوارہے ہو آپ بیٹی سے حق وراثت؟
انہوں نے غصے سے مجھے دیکھا اور بولے تمہارے انہی خیالات کی وجہ سے خاندان والے تمہیں پسند نہیں کرتے۔
اتنی سی بات نہیں سمجھ رہے کہ وراثتی جائیداد غیروں میں نہیں جانی چاہیے۔
ناراضگی کی پروا کئے بغیر میں نے عرض کیا، اس غیرت کامظاہرہ بیٹی کو غیروں میں بیاہتے وقت کیوں نہ کیا۔ میرے یہ عزیز پچھلے دس برسوں سے ناراض ہیں کبھی کسی شادی بیاہ یا کسی وفات پر آمنا سامنا ہو تو منہ موڑ کر دوسری طرف چلے جاتے ہیں۔
میری رائے آج بھی یہی ہے کہ والدین بیٹی کو جہیز بھلے نہ دیں مگر اس کی وراثت کا حصہ ضرور دیں۔
ثانیاً یہ کہ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ شادی کے بعد کیا حالات ہوں کون جانتا ہے کسی انہونی کی صورت میں تعلیم یافتہ بیٹی زندگی کی دوڑ سے باہر ہونے کی بجائے حالات کا سامناکرنے کی اہل ہوگی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ یہ جو جہیز کے اسلامی اور ہندوانہ رواجات کی کھوکھلی بحث ہے ذاتی طور پر مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں اسی طرح میں ورکنگ ویمن کے تصور کو غیراسلامی نہیں سمجھتا۔
آپ اختلاف کرسکتے ہیں ہم اس پر مکالمہ کرلیتے ہیں۔ مناظرہ میرے بس میں نہیں۔
قبل اسلام اور بعد اسلام کے عرب کی درجنوں روایات دستیاب تاریخی کتب میں موجود ہیں جب والدین نے توفیق کے مطابق بیٹی کو رخصت کرتے وقت حسب توفیق جہیز بھی دیا اور وراثت کا حصہ بھی۔
ہمارے یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ہم کسی بھی سماجی ایشو پر بات کرتے ہوئے کفر و اسلام کی جنگ چھیڑ دیتے ہیں جس سے حقائق مسخ ہوجاتے ہیں۔
بھارت میں درجنوں ہندو تنظیمیں جہیز کے خلاف متحرک ہیں غور کیجئے تو یہ تنظیمیں فرمائشی جہیز کے خلاف ہیں۔ یعنی وہ جہیز جو لڑکے والے فہرست بناکر بھجواتے اور مانگتے ہیں۔
’’چندرپال نامی اپنے ہندو دوست سے میں نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا آپ لوگ اپنے معاشرے میں بیٹیوں اور بہنوں کے لئے خاندانی وراثت میں سے حصہ دلوانے کی تحریک منظم کریں۔
چندرپال ستیا بولے جس معاشرے میں جہالت اور توہم پرستی کا دوردورہ ہو اس میں مساوی حقوق کی بات بہت مشکل سے حلق سے اترے گی۔
ہمارے یہاں بھی صورتحال مختلف نہیں۔
بہت سال ہوتے ہیں تب ہمارے دوست جے سالک منصوبہ بندی (بہبود آبادی) کے وفاقی وزیر تھے ان کی وزارت نے کراچی میں بہبود آبادی سے متعلق ایک سیمینار کروایا ہم بھی مقررین کی فہرست میں شامل تھے۔
دو تین باتیں جووہاں کیں وہ آج بھی یاد ہیں۔ اولاً یہ کہ منگنی کے وقت لڑکے اور لڑکی کا میڈیکل ٹیسٹ ہوناچاہیے کہ دونوں میں کوئی موروثی بیماری یا کچھ اور مسئلہ تو نہیں۔ نکاح نامہ کے ساتھ یہ میڈیکل رپورٹ منسلک کیا جانالازمی ہو۔ ثانیاً فرمائشی جہیز کی روک تھام اورثالثاً بچیوں کو وراثتی حق دلوانے کے لئے قانون سازی۔
جے سالک نے وعدہ کیا وہ اس سلسلے میں ساتھی وزراء سے بات کریں گے۔ تین چار سال بعد ان سے ایک ملاقات میں میں نے انہیں وعدہ یاد دلایا تو جواب میں دل گرفتہ اندز میں بولے
یار شاہ جی، اس وقت میرے بعض وزیر دوستوں نے نہ صرف میرا مذاق اڑایا بلکہ یہاں تک کہا اب تم عیسائی ہمیں اخلاقیات سمجھاو گے، بینظیر بھٹو نے تمہیں بہت سر چڑھالیاہے۔
معذرت چاہتاہوں بات دوسری طرف نکل گئی۔ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں قانون سازی کی ضرورت لازمی تعلیم، جہیز کے فرمائشی پروگرام اور بچیوں کے وراثتی حقوق کے لئے۔
ہم دوسروں کی روایات کا بوجھ کیوں اٹھائیں ہمیں اپنی روایات بنانا ہوں گی۔
یہ بھی عرض کروں کہ ہمیں اگلی نسلوں کے لئے بند گلی کا ورثہ نہیں بلکہ ایک انسانیت پرور سماج چھوڑنا چاہیے۔ ہماری بیٹیاں ہماری کمزوری نہیں بلکہ ہماری اصل طاقت ہیں۔
صنف کی بنیاد پر امتیاز ہر سطح پر ختم ہونا چاہیے۔ قانون سازی کرنی پڑتی ہے تو کریں خوف کس بات کا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ امتیازات کے خاتمے اور والدین پر بوجھ بننے والی رسومات اور بچیوں کو حق وراثت سے محروم رکھ کر ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں۔
کاش ہم نے تہتر برسوں میں انسان سازی کے لئے بھی ایک ادارہ بنالیا ہوتا۔ ایٹم بم بنالیا بہت تیر مارا انسان نہ بناسکے، آدمیوں کا جنگل بڑھ رہا ہے، تعصبات اور جہالت کا دوردورہ ہے۔
21ویں صدی میں آن پہنچے ہیں مگر ذہنی طور پر 15ویں صدی میں کھڑے ہیں۔
ایک ایک قدم آگے بڑھنا چاہیے مجھے آپ کو ہم سب کو تبھی سفر طے ہوگا اور منزل پر پہنچ پائیں گے ورنہ جیسے ہیں اس سے بھی برے حالات ہماری اگلی نسلوں کا مقدر ٹھہریں گے۔
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے کی بجائے اپنے عصری شعورکے ساتھ جدوجہد کیجئے تاکہ ایک ایسا انسانی سماج تشکیل پائے جس پر آئندہ نسلیں فخر کرسکیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر