عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوے کی دہائی ميں جب آئی ایم ٹی نے طبقاتی جدوجہد کے نام سے کام شروع کیا تو پاکستان کا روایتی لیفٹ انتہائی انتشار کا شکار تھا۔ سوویت یونین کے زوال اور دیوار برلن کے ٹوٹ جانے ساتھ ہی کمیونسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد پاکستان کے سیاسی میدان میں دو طرح کے رجحان غالب تھے:
ایک طرف دائیں بازو کا مذہبی رجحان تھا جو سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کو سیاسی جہادی اسلام کی جیت قرار دے رہا تھا اور "سوویت یونین ٹوٹتا دیکھا ہے، اب امریکہ ٹوٹتا دیکھیں” کے نعرے لگا رہا تھا اور دوسری جانب دائیں بازو کا نیولبرل رجحان تھا جو سوشلسٹ اکنامی پر لبرل و نیولبرل اکنامی کی حتمی فتح کے گیت گارہا تھا اور سوشل ڈیموکریسی پہ لبرل و نیولبرل ڈیموکریسی کی فتح کے گیت الاپ رہا تھا۔ یہ دونوں گروہ اس بات پہ متفق تھے کہ پاکستان کی پولیٹکل اکنامی کو سرمایہ دارانہ نظام کی انتہا پرست شکل نیو لبرل مارکیٹ اکنامی ہونا چاہئیے اور یہ پاکستان میں منصوبہ بند معشیت کے سخت مخالف تھے یہ اور بات ہے کہ دائیں بازو کے مذہبی رجعت پرست اسے مذہبی اصطلاحوں میں رنگ کر بیان کرتے اور پاکستانی نیولبرل اسے جدید سرمایہ دارانہ اصطلاحوں میں بیان کیا کرتے(آج تک یہ وتیرہ جاری و ساری ہے)
پاکستان جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ہی مارکیٹ ماڈل والے سرمائے داری نظام کی پیروی کی طرف چل پڑا تھا۔ امریکی سامراجی بلاک کی مداح سرائی کرنے میں پاکستان کے لبرل و نیو لبرل دانشور مصروف تھے۔ بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں نیشنل عوامی پارٹی کے اندر سے نکلنے والی سیاسی جماعتیں پشتون اور بلوچ نیشنلزم کے ساتھ سوشلزم کے تڑکے کو کب کا ختم کرچکی تھی اور ان جماعتوں میں لیفٹ اپوزیشن کب کی دم توڑ گئی تھی۔ جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر بھی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 90ء کی دہائی میں "عملیت پسند معاشی و سیاسی پالیسی” کے نام پر امریکہ میں ریگن ازم اور برطانیہ میں تھیچر ازم جو نیولبرل سرمایہ داری کے ماڈل کا دوسرا نام تھا کی طرف نیم دروں نیم بروں قدم بڑھایا(یہ اس وقت کی آئی جے آئی اور بعد ازاں نواز لیگ کی طرح کا انتہائی بے رحم اور انستھیزیا کے بغیر سرجری کرنے جیسا عمل نہیں تھا)
پاکستان پیپلزپارٹی میں 80ء کی دہائی کے آخر میں ایک بحث نے اس وقت جنم لیا تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو علاج کی غرض سے لندن گئیں اور وہاں اس زمانے میں لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں ایک اور ٹرن آرہا تھا جسے نیولبرل ازم کے نام سے تعبیر کیا جارہا تھا۔ یورپ کے تمام ممالک اس طرف شفٹ ہورہے تھے اور یورپ میں اس تبدیلی کی سب سے بڑی علمبردار مارگریٹ تھیچر تھیں جو برطانیہ کی وزیراعظم تھیں جبکہ امریکہ میں نیولبرل اکنامی کا علمبردار صدر ريگن تھا اور اسی مناسبت سے یورپ میں اسے تھیچرازم اور امریکہ میں اسے ریگن ازم کا نام بھی دیا جارہا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے معشیت کی لبرلائزیشن اور ریاست کے معشیت میں کردار کو ریگولیٹری اداروں کی نگران باڈی تک محدود کرنے کے تصور سے اپنی پارٹی کو مطابقت میں لانے کے لیے پی پی پی کی تاسیسی دستاویز کو عملی طور پر تبدیل کرنے کا اشارہ یورپ میں قیام کے دوران اور امریکہ کے کئی بار دوروں کے دوران دیا اور جب وہ اپريل 1986ء میں وطن لوٹیں تو انھوں نے واضح طور پر پاکستانی معشیت کی لبرلائزیشن کے حوالے سے پارٹی کی پالیسی میں تبدیلی کے بیانات دینے شروع کردیے۔ بے نظیر بھٹو ابھی جلاوطن تھیں جب ان کے معشیت پر خیالات کے حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر بحث شروع ہوگئی تھی اور اختلافات بھی سامنے آنے لگے تھے۔ دوسری تبدیلی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسی زمانے میں امریکہ کی طرف پارٹی کے رویے کے حوالے سے دینا شروع کی ۔ انہوں نے امریکہ اور یورپی سرمایہ داری بلاک کے اراکین کو یہ باور کرایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی وہ عالمی سطح پر سرمایہ داری بلاک کے خلاف ہے۔ اس لچک سے پارٹی کے اندر ایک اور بحث بھی ساتھ ساتھ ہونے لگی کہ کیا اب سامراج اور سامراجیت کا زمانہ چلا گیا ہے اور کیا پاکستان پیپلزپارٹی کو پاکستان میں حکومت کرنے کے لیے امریکی اسٹبلشمنٹ سے لابنگ کرنے کی ضرورت بنتی ہے؟
پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر اس وقت لیفٹ کے نام پر دو رجحانات بن چکے تھے۔ ایک وہ لیفٹ رجحان وہ تھا جو پاکستان میں پرانے لیفٹ رجحانات کا حامل تھا اور اسے عمومی طور پر چین نواز اور ماسکو نواز لیفٹ کہا جاسکتا تھا- اس کے بچے کچھے نظریاتی کاڈر اس وقت پارٹی کے اندر موجود تھے جن میں سب سے بڑا نام شیخ رشید احمد بابائے سوشلزم کا تھا اور یہ چین نواز روایت سے پی پی پی میں داخل ہوئے تھے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں بابائے سوشلزم کی پاکستان پیپلزپارٹی کے شہری اور دیہی غریبوں، پیٹی بورژوازی سے تعلق رکھنے والے لیفٹ رجحان کے حامل وکلا، پروفیسرز اور دیہی و شہری غریب کارکنان میں جڑیں تھیں- یہ واضح طور پر پی پی پی کی شریک چئیرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کے تھیچر ازم اور ریگن ازم سے متاثر ہونے سے خوش نہ تھے اور یہ پی پی پی کے سوشلسٹ اکنامک پروگرام کے آدرش سے دست بردار ہونے اور اس کو غیر منصوبہ بند معشیت کی طرف لیجانے کے مخالف تھے۔ بابائے سوشلزم کا حلقہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے امریکہ کی طرف پالیسی لائن کی تبدیلی کو بھی اختلافی نظر سے دیکھ رہا تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی میں ایک رجحان اور بھی تھا جو بے نظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ بيگم نصرت بھٹو کی جانب سے جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو ملاکر ایم آر ڈی کی تشکیل کرنے کا بھی سخت مخالف تھا اور وہ پی پی پی کی جانب سے عدم تشدد پہ مبنی سیاسی پالیسی کی بھی شدید مخالفت کررہا تھا۔ اس رجحان کے حامل مرتضی بھٹو شہید کی مسلح جدوجہد کو تحسین کی نظر سے دیکھتی تھی اور یہ منصوبہ بند معشیت اور امریکی سامراجیت کی شدید مخالف تھی۔ یہ انتہا پسندی کی حد تک جانے والے لوگ تھے اور یہ بے نظیر بھٹو پہ عالمی سطح پر سامراجیت کے آگے سرنڈر کرنے اور ملکی سطح پر جاگیرداروں سے مل جانےکا الزام عائد کرتے تھے۔ اس گروہ کی قیادت پنجاب میں ڈاکٹر مبشر حسن کررہے تھے۔
پاکستان پیپلزپارٹی میں لیفٹ کا نسبتا ایک نیا رجحان بھی تھا جس کی تعمیر کرنے والوں کا نمایاں کاڈر یورپ میں جلاوطن ہوجانے والے ان نوجوان جیالوں کا تھا جو وہاں جاکر نئے مارکس واد و سماج واد رجحانات سے واقف ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر لوگ ٹراٹسکائٹ رجحان کے حامل تھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر