اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ثنا اللہ شمیم ایڈوکیٹ اور ادب کا فروغ||گلزار احمد

ڈیرہ پھلاں دا سہرا شھر میں فروری میں پھولوں کا میلہ سجانے کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل ڈائرکٹر ڈاکٹر ممتاز صاحب اور یونیورسٹی کے سینیر سٹاف ممبراحسان بلوچ کو جاتا ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

ڈیرہ پھلاں دا سہرا شھر میں فروری میں پھولوں کا میلہ سجانے کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل ڈائرکٹر ڈاکٹر ممتاز صاحب اور یونیورسٹی کے سینیر سٹاف ممبراحسان بلوچ کو جاتا ہے۔
ایک طرف تو ان حضرات نے اپنے سنٹر کو جدید علم کے فروغ کا مرکز بنا رکھا ہے دوسری طرف اس سنٹر کو ڈیرہ کی نابغہ شخصیات کے ذریعے ادب کے فروغ کا ذریعہ بنا دیا۔ گزشتہ ایک ہفتے میں اس سنٹر میں دو شاندار اور یادگار تقاریب منعقد ہوئیں جن کی گونج تاریخ کے صفحات میں دیر تک سنائی دیتی رہیگی۔ پس پردہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے صوبائی صدر ثنا اللہ شمیم کا بہت بڑا کردار تھا۔اس اقدام پر اوپن یونیورسٹی کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ ڈیرہ کی ادبی تنظیموں کے مابین اتحاد و یگانگت پیدا کرنے پر انجمن ترقی پسند مصنفین ۔ دائرہ ۔ باب العلم ادبی فورم بڑی سرگرمی سے کردار ادا کر رہے ہیں جن کے ہم شکر گزار ہیں۔ان تنظیموں کے جو دماغ پس پردہ ڈیرہ کے اتحاد و یگانگت اور ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں وہ حضرات ہیں ثنا اللہ شمیم گنڈہ پور ۔ابوالمعظم ترابی۔عرفان مغل۔وجاہت علی عمرانی ۔خورشید ربانی ۔ارشاد حسین شاہ۔حفیظ گیلانی ۔نور محمد نور مستی خیل۔ عنایت عادل۔ منیر فردوس اور پہاڑپور کے ملک عزیز۔خواتین میں روبینہ قمر ۔ثنا خان ۔بشری محسود ۔ رخسانہ سمن ۔ریحانہ فردوس ڈومرا ۔صائمہ قمر اور نبیلہ خان شھر میں علمی ادبی فضا پیدا کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ثنا اللہ شمیم ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ایک دانشور ۔مصنف۔ شاعر ہونے کے باوجود پچھلے چالیس سال سے ڈیرہ میں ادب کے فروغ کی بے مثال خدمت سر انجام دے رہے ۔انکساری کا یہ عالم ہے کہ فنکشن کی دریاں بچھانے اور کرسیاں لگانے میں برابر شریک رہتے ہیں اور ہر ایک سے محبت سے پیش آتے ہیں ۔اللہ پاک ان کوصحت وخوشحالی کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے اور ہم سب کی سرپرستی اور رہنمائی کرتے رہیں آمین..عرفان مغل صاحب نے روزنامہ اعتدال کے صفحات اور اپنا دفتر ادیبوں کے اجلاس اور ادب کے فروغ کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔اللہ ان کو سلامت رکھے آمین۔
جمعرات کے روز اردو ادب کی لیجنڈ خاتون نیلم بشیر صاحبہ کے اعزاز میں جو نشست ہوئی تو اس میں مرکزی کردار منیر فردوس اور احسان بلوچ نے ادا کیا اگرچہ ثنا خان بھی بھاگ دوڑ میں شامل رہیں۔ بیک گراونڈ میں ثنا اللہ شمیم کا دماغ کام کر رہا تھا۔
نیلم بشیر صاحبہ نے جو باتیں کیں وہ قابل غور تھیں ۔انہوں نے کہا اللہ پاک نے آپکو بے پناہ صلاحتیں دیکر دنیا میں بھیجا تاکہ آپ یہ صلاحتیں استعمال کر کے اس کی مخلوق کو فاعدہ پہنچائیں آپ روٹی کھانے اور سونے کے لیے دنیا میں نہیں آیے بلکہ کچھ کر کے جائیں ۔زندگی مختصر ہے اس میں وقت ضائع نہ کریں۔ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا تاکہ وہ خود پر انحصار کر سکیں۔انہوں نے کہا اپنی سوچ کو تعمیری بنائیں تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ دولت کی ہوس سے دور رہیں ۔نیلم بشیر نے کہا ہمارے گھر میں سونے کے زیورات نہیں ہیں ہم آرٹیفیشل جیولری استعمال کرتے ہیں۔ اگر زندگی میں کوئی مقصد ہے تو وہ ضرورت مندوں کے کام آنا ہے۔انہوں نے امریکی معاشرے سے متعلق بتایا کہ وہاں ہر بندہ خو کما کر کھاتا ہے اس لیے آذاد سوچ کا مالک ہے اور دوسرے لوگ ان پر اپنی سوچ مسلط نہیں کر سکتے۔
نیلم بشیر کے اعزاز میں یہ تقریب یادگار تقریب تھی جس میں ان کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرف سے تحائف بھی پیش کیے گیے۔

%d bloggers like this: