حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب وزیراعظم اور ان کے رفقا اٹھتے بیٹھتے چوروں کو این آر او نہیں ملے گا کی تکرار میں اڑھائی برسوں سے مصروف ہیں۔ چوروں سے ان کی مراد کیا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں۔
اپنی اپوزیشن کے لئے ان کے دل میں نرم گوشہ نہیں ہے۔ ایک موقع پر وہ یہ بھی کہہ چکے کہ اپوزیشن میں عوام کے دھتکارے ہوئے چہرے ہیں۔ جمہوری سیاست میں یہ رویہ طرز تکلم اور عدم برداشت مناسب نہیں لیکن سمجھائے اور عرض کون کرے۔
تحریک انصاف کی حکومت پہلی حکومت نہیں جو سیاسی مخالفین کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ جناب نوازشریف کی اٹھان بھی اسی سوچ اور انداز تکلم کے ساتھ ہوئی پھر وقت نے انہیں سمجھایا سکھایا کہ ’’سیاست چیز دیگر است‘‘۔
وہ سمجھ گئے درمیان میں کچھ پٹڑی سے اترے، آجکل پھر سیدھے سبھاو چل رہے ہیں۔
عمران خان کی جدوجہد کا پورا عرصہ کرپشن کے خاتمے اور بلاامتیاز انصاف کے نعروں پر بسر ہوا۔
اس کالم کے قارئین کو یاد ہوگا کہ 2007ء کے بعد مسلسل عرض کرتا رہا کہ آزاد عدلیہ، کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کی فراہمی سیاست کا رزق ہوں گے۔
آزاد عدلیہ کا جو حال افتخار چودھری نے کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ کرپشن ختم کرنے اور بلاامتیاز انصاف فراہم کرنے کے علمبرداران کہاں تک کامیاب ہوئے۔ صاف سامنے دیوار پر لکھا ہے۔
انصافی دوست ناراض ہوتے ہیں ورنہ حقیقت یہی ہے کہ کرپشن بڑھی ہے۔ انصاف کیسے فراہم ہوتاہے۔ سانحہ ساہیوال اس کی زندہ مثال ہے۔ ہمارے وہ دوست جو پی پی پی اور نون لیگ کےحامیوں کو جاہل گنوار، بریانی کی پلیٹ کے بھوکے خاندانی غلام قرار دیتے تھے ایک پڑھی لکھی بااخلاق سمجھدار حکومت لانے میں کامیاب ہوگئے نتیجہ کیا نکلا؟
پڑھے لکھے انصاف پسند دوستوں سے پوچھ لیجئے۔ جن کے سامنے مہنگائی اور دوسرے مسائل رکھے جائیں تو ان کا جواب ہوتا ہے ’’چونکہ پچھلے حکمران چور تھے اس لئے مسائل ہیں ہم ستر سال کا گند صاف کررہے ہیں‘‘۔
کوئی ہمارے ان پڑھے لکھے دوستوں کو بتائے کہ 70سالوں میں 35سال اور کچھ ماہ چار فوجی حکومتیں رہیں ان چار میں سے تین فوجی حکومتیں جناب عمران خان کی آئیڈیل ہیں اور وہ ان ادوار کی مثالیں بھی دیتے ہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف کی جرنیلی جمہوریت کے تو وہ سب سے بڑے حامی تھے۔
سادہ بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ 70سال کے گند کا مطلب 35سال کا گند شامل ہے۔
بہرحال اب قصہ یہ ہے کہ وزیراعظم چوروں کو این آر او دینے پر تیار نہیں بالکل نہ دیں لیکن عوام کو ہوسکے تو این آر او دے دیں کیونکہ 35روپے کلو والا آٹا 77روپے کلو ہوگیا ہے۔
ان دنوں سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ سے کروانے کے لئے وزیراعظم اور ان کے رفقا پرعزم ہیں دو دن اُدھر ہمارے ملتانی مخدوم قبلہ شاہ محمود قریشی پی پی پی اور نون لیگ کے میثاق جمہوریت کو لئے بیٹھے تھے
ایک صحافی نے سوال کیا آپ تو کہتے ہیں دونوں چور ہیں پھر اس میثاق جمہوریت پر بات کیوں؟
مخدوم صاحب ناراض ہوگئے۔ نازک مزاج بھی حضور بہت ہیں۔
حکومت شو آف ہیڈ کے لئے پہلے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم لائی ناکامی دیکھ کر صدارتی آرڈیننس لے آئی ان دونوں کاموں سے قبل حکومت سپریم کورٹ بھی گئی بلکہ ابھی تک موجود ہے۔
سادہ سا سوال ہے وہ یہ کہ جب سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک آئی تھی تب حکومت کو شوآف ہینڈ کی افادیت ایمانداری اور جرات کی ضرورت کا احساس کیوں نہ ہوا؟ فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ سارا شوروغل اس لئے ہے کہ اسے پنجاب سے اپنے 15ایم پی اے اور قومی اسمبلی کے 13ارکان ہاتھ سے نکلتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔
ہم نے کہا فقیر جی محسوس یا دیکھائی؟
تڑخ کر بولے زیادہ سوال کرو گے تو میں کالم خود لکھ لوں گا۔
ویسے اگر واقعی یہ خطرہ ہے تو اس کا مطلبہ یہ ہوا کہ پی ڈی ایم والے یا سابق صدر آصف زرداری درست کہتے ہیں کہ شو آف ہینڈ شکست سے بچنے کے لئے ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟
ایساہے تو پھر مراد سعید، شبلی فراز، اسد عمر درست کہتے ہیں پڑھے لکھے لوگ ہیں نادرست تو کہہ نہیں سکتے۔
ہمارے ایک دوست مرید عاصم کہتے ہیں سارے یعنی ہر قسم کے "انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کیوں نہیں‘‘
خیر چھوڑیں آپ ایک خط پڑھیں نوشہرہ سے محمد سعد خان کہتے ہیں
’’شاہ جی! ہمارے خاندان نے تحریک انصاف کو اس امید پر ووٹ دیا تھا کہ خان صاحب تعمیروترقی کے دروازے کھولیں گے حالات اچھے ہوں گے لیکن ہم دن بدن مایوس ہوتے جارہے ہیں سفید پوشی کا جو بھرم پہلے تھا اب اسے قائم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں توازن نہیں رہا اس لئے چھ ماہ سے ناشتہ کرنا بند کردیا ہے گھرمیں صرف والدہ صاحبہ کے لئے ناشتہ تیار کیا جاتا ہے کہ وہ بیمار ہیں خالی پیٹ ادویات نہیں دی جاسکتیں۔ خان صاحب ریاست مدینہ بنانے چلے تھے پھر یورپ گئے وہاں سے چین، آج کل پھر ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہیں ان سے درخواست کیجئے کہ وہ ہمیں دنیا کا سفر نہ کروائیں جو کرنے کے کام ہیں وہ کریں مہنگائی جان پر عذاب ہے تنخواہیں پرانی اور مہنگائی نئی‘‘۔
محمد سعد خان چونکہ تحریک انصاف کے ووٹر ہیں انصافی نہ بھی ہوتے تب بھی ان کا خط اس کالم میں شامل کرتا۔ حکومت سے جو گلے شکوے انہوں نے کئے وہ لکھ دیئے ہیں آگے ان کی قسمت کیونکہ ہمارا یہ دعویٰ کبھی نہیں رہا کہ ہمارا کالم اہل اقتدار پڑھتے ہیں۔ ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ ان کا خط کوئی وزیر پڑھ لے اور خان صاحب کو بتائے کہ ووٹر کیا کہتے ہیں۔
اب آخر میں سینیٹ سے عربی پڑھانے کی قرارداد کی منظوری پر بات کرلیتے ہیں۔ بٹوارے کے بعد ہمارے یہاں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔
بنگالیوں سے پہلا تنازع اسی پر ہوا تھا۔
ہم سے طالب علم تو طویل عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ ابتدائی ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی ہونی چاہیے۔ سینیٹ میں عربی پڑھانے کی قرارداد نون لیگ کے جاوید عباسی نے پیش کی تھی۔
ہمارے لالہ سراج الحق تو اتنے جذبائی ہوئے کہ بولے عربی کو لازمی قرار دیا جائے۔ ان کا جذباتی ہونا بنتا بھی ہے وہ عالمگیر انقلاب اسلامی کے علمبردار ہیں۔
بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ انسانی تاریخ میں لازم نہیں ہوا کہ مذہب تبدیل کرنے کے ساتھ اس مذہب کی بنیادی زبان (یعنی جہاں سے آغاز ہوا ہو) کو بھی قبول کیا جائے۔
ہمارے اور مسائل بہت ہیں آخر کب ہم اندھی تقلید کے جنون سے نجات حاصل کریں گے اور کب یہ سمجھیں گے کہ ہمارا وہی ہے جو ہمارے پاس ہے۔
زبان وہی جو مادری ہو یا پھر رابطے کی۔ باقی جو جتنی زبانیں سیکھ لے اچھا ہے لیکن یہ کہ عربی پڑھائی جائے والا مذاق اچھا نہیں ہے براہ کرم کسی معاملے میں تو سنجیدگی اختیار کیجئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر