حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اس تحریک مزاحمت کی بانی ’’جموں و کشمیر محاذ رائے شماری‘‘ نامی جماعت تھی۔ یہ جماعت خودمختار کشمیر کی حامی تھی۔
گنگا طیارہ کیس میں شامل مقبول بٹ، ہاشم قریشی اور اشرف قریشی تینوں کا تعلق محاذ رائے شماری سے تھا۔ تینوں حریت پسند بھارتی طیارہ اغوا کرکے لاہور لائے تھے یہ جنرل یحییٰ خان کے دور کی بات ہے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیری حریت پسندوں کا استقبال کیا تھا۔
بعدازاں محمد مقبول بٹ نے امان اللہ کے ساتھ مل کر جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے نام سے الگ تنظیم قائم کی ان دونوں کا خیال تھا کہ سیاسی اور عسکری محاذوں کے لئے الگ الگ تنظیمیں ہونی چاہئیں۔
مقبول بٹ اور امان اللہ خان نے فیصلہ کیا کہ مقبول بٹ مقبوضہ کشمیر میںاور امان اللہ خان آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں تحریک آزادی کو منظم کریں گے۔ جے کے ایل ایف بھی خودمختار کشمیر کی حامی تھی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ آزاد کشمیر کے ایک سابق مرحوم صدر سردار عبدالقیوم خان نے 1970ء کی دہائی میں ’’البرق مجاہدین تنظیم آزادی‘‘ کے نام سے بھی ایک تنظیم قائم کی تھی۔ چندہ و ندہ بھی اکٹھا ہوا لیکن البرق مجاہدین نے مقبوضہ کشمیرمیں کتنی عسکری جدوجہد کی اور ابتدائی طور پر وصول کئے گئے 14لاکھ روپے چند ےکا کیا ہوا؟ یہ راز سردار قیوم کے ساتھ ہی دفن ہوگیا۔
ہاشم قریشی نے راولپنڈی میں پشاور روڈ پر واقعہ پولی ٹیکنیکل کالج کی کینٹین کا ٹھیکہ لے لیا برسوں وہ یہ کینٹین چلاتے رہے۔ اشرف قریشی جہاں تک یاد پڑتا ہے جماعت اسلامی کو پیارے ہوگئے تھے اور غالباً بعد میں پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرار ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران جب پولی ٹیکنیکل کالج راولپنڈی کی ’’عوامی حیثیت‘‘ ختم کی گئی ہاشم پاکستان سے باہر چلے گئے پھر ایک دن مقبوضہ کشمیر میں نمودار ہوئے اب کس حال میں ہیں پتہ نہیں۔
امان اللہ خان نے آزاد کشمیر اور پاکستان میں مقیم کشمیریوں میں جے کے ایل ایف کو منظم کیا۔ ڈاکٹر فاروق حیدراور فیصل ناز کی ان کے اہم ساتھیوں میں شامل تھے۔ محمد مقبول بٹ پارٹی کے فیصلے کے بعد آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر چلے گئے جہاں وہ گرفتار ہوئے۔
بھارت میں ان پر طیارہ اغوا اور بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔ فروری 1983ء میں بھارتی عدالتوں کے فیصلے کے نتیجے میں تہاڑ سنٹرل جیل دہلی میں پھانسی دے کر وزارت داخلہ کے خصوصی حکم پر ان کے جسدخاکی کو جیل کے اندر ہی دفن کردیا گیا۔
کشمیری تحریک مزاحمت کی بانی بہر طور جموں کو کشمیر لبریشن فرنٹ ہی ہے۔ فرنٹ چونکہ خودمختار کشمیر کا علمبردار تھا اس لئے پاکستانی کشمیر میں سیاست کرنے والی جماعتوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ فروری 1983ء میں مقبول بٹ کی شہادت سے شروع ہوئی تحریک مزاحمت اب تک جاری ہے اس دوران لبریشن فرنٹ دو حصوں میں تقسیم ہوئی ایک کی سربراہی یاسین ملک اور دوسرے گروپ کی سربراہی جاوید میر نے سنبھال لی۔
فرنٹ کی مقبولیت اور الحاق پاکستان کی سوچ پر خود مختاری کے نعرے کے غلبہ کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی نے حزب المجاہدین بنوائی جبکہ ریاستی سرپرستی میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے پروفیسر، پروفیسر حافظ محمد سعید نے لشکر طیبہ کی بنیاد رکھی۔
ان دونوں تنظیموں کے قیام کا کشمیری تحریک مزاحمت کو فائدہ کتنا ہوا اور نقصان کتنا، دعوئوں اور جہاد پروری ہر دو سے ہٹ کر اگر دیکھیں تو حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کے قیام اور پھر ان کے تربیت یافتہ کارکنوں کے مقبوضہ کشمیر میں پہنچنے کے بعد مقبوضہ وادی میں چند مقامات پر ان عسکریت پسندوں اور مقامی آبادی کے درمیان تنازعات نے سر اٹھایا یہ تنازعات خالصتاً فرقہ وارانہ عقائد کے حوالے سے تھے کیونکہ عسکریت پسندوں نے عقائد کی اصلاح کو بھی جہاد کا حصہ سمجھ کر خدمات سرانجام دینا شروع کردیں۔
بہرطور یہ دونوں تنظیمیں اور بعدازاں بننے والی حرکت المجاہدین حزب المومنین اور جیش محمد الحاق پاکستان کی فکر کی علمبردار ہوئیں۔ پچھلی چار دہائیوں سے تقسیم کے باوجود لبریشن فرنٹ آج بھی مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کی موثر ترین جماعت ہے یہ الگ بات کہ پاکستان ذرائع ابلاغ اپنی مجبوریوں اور ضرورتوں کے پیش نظر لبریشن فرنٹ کے صرف یاسین ملک گروپ کو کوریج دیتے ہیں
کیونکہ یاسین ملک نسبتاً پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی شادی بھی پاکستان میں ہوئی ہے
تمہید طویل ہوئی لیکن یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی 5فروری کو کوٹلی آزاد کشمیر میں کی گئی تقریر اور کشمیریوں کو تیسرے آپشن کی پیشکش
’’پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا الگ آزاد ریاست کے طور پرٔ‘‘ پر بات کرنے سے قبل قارئین کو کشمیری تحریک مزاحمت کی تاریخ کچھ اہم نکات اور واقعات سے آگاہ کردیا جائے۔ پاکستان کا پچھلے 72سالوں (آزاد کشمیر جب سے مقبوضہ وادی سے الگ ہوا) سے یہی موقف ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔
بھارت ناجائز طور پر قابض ہے۔ سلامتی کونسل کی 1948ء میں کشمیر میں استصواب رائے کے لئے منظور کی جانے والی جس قرارداد پر ہم بہتر سالوں سے دھمال ڈال رہے ہیں کسی دن اس کا متن پڑھ لیجئے اس میں صاف لکھا ہے کہ
اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیر کے دونوں حصوں کے عوام بھارت یا پاکستان کے ساتھ رہنے کے لئے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ کشمیری عاوم جب حق خودارادیت استعمال کریں گے، دونوں ملک اپنے اپنے پاس علاقوں سے فوج واپس بلالیں گے البتہ انتظامی ضرورت اور پرامن ماحول میں استصواب رائے کے لئے بھارت ضرورت کے مطابق فورسز رکھ سکے گا۔
اب آگے بڑھتے ہیں پاکستان نے یہ جانتے سمجھتے ہوئے کہ قرارداد کا متن بھارت کے حق میں جاتا ہے اس میں ترمیم کیوں نہ تجویز کی؟
اب آیئے وزیراعظم عمران خان کی 6فروری کو کوٹلی آزاد کشمیر میں کی گئی تقریر پر،
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو یہ حق ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہیں یا آزاد حیثیت میں۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے طویل عرصہ سے تو پاکستانی ریاست کشمیر کے الحاق پاکستان کی حامی و مدعی تھی۔
جے کے ایل ایف کے مقابلہ میں مذہبی بنیادوں پر عسکری تنظیمیں بنوانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ تحریک مزاحمت قومیت کی بجائے مسلم قومیت کے فلسفہ پر استوار ہو لیکن اب ایسا کیا ہوگیاکہ وزیراعظم نے کشمیریوں کو تھرڈ آپشن کی پیشکش کردی۔
کیا پاکستانی ریاست نے اپنے دیرینہ موقف کشمیر بنے گا پاکستان میں تبدیلی کرلی ہے؟
ایساہے تو یہ بتایا جائے کہ یہ فیصلہ کس نے اور کہاں کیا اور کیا فیصلہ کرنے والوں کو اس کا حق کس نے دیا تھا۔
کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا کہ وزیراعظم کی اس تقریر سے پیدا ہوئے مسائل اور سوالات کا جواب سیاسی اکھاڑوں میں دینے کی بجائے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور اس اجلاس میں حکومت تنازع کشمیر پر اپنا موقف واضح کرے اور عوام کو یہ بتایا جائے کہ ا گر ریاست نے تھرڈ آپشن کو مستقبل کی خارجہ اور قومی پالیسی کا حصہ بنالیا ہے تو پچھلے چالیس سالوں میں جہاد کشمیر کے نام پر ہزاروں پاکستانی کیوں قربان کئے گئے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر