نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔حیدر جاوید سید

وزیراعظم کو چاہئے کہ کسی دن کا بینہ کا ایک خاص اجلاس اس موضوع پر بھی منعقد کریں، اپنے رفقا سے مشورہ کریں کہ وہ کیا طریقے ہوسکتے ہیں جنہیں اپنا کر حکومت شہریوں کو ریلیف دے سکتی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیران کر دینے والی باتیں ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں ”مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے، جب حکومت سنبھالی اس وقت کے مقابلہ میں مہنگائی کم ہے”۔ ہمارے ملتانی مخدوم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں ”آج جو مہنگائی ہے یہ نون لیگ کا تحفہ ہے” جبکہ اسدعمر کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی 5اعشاریہ4فیصد رہ گئی ہے۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ صرف32 دنوں (یکم جنوری سے یکم فروری تک) کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تین بار اضافہ ہوا، مہینہ بھر سے ایک دن اوپر پیٹرول کی قیمت مجموعی طور پر ساڑھے آٹھ روپے بڑھی، جنوری میں ہی بجلی کی قیمت 2بار فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بڑھی اور پھر ایک روپیہ پچانوے پیسے فی یونٹ بنیادی ٹیرف میں اضافہ ہوا،
ادارہ شماریات کے مطابق جنوری کے آخری ہفتہ میں روزمرہ ضرورت کی 18اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ جناب عمران خان جب وزیراعظم بنے تھے،35روپے کلو آٹا، 55روپے کلو چینی تھی۔ ان دونوں چیزوں کی قیمت آج کیا ہے؟
کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔
البتہ ادب واحترام کیساتھ یہ عرض کیا جانا چاہئے کہ حضور!
اڑھائی برسوں میں مجموعی طور پر 150فیصد مہنگائی بڑھی۔ ادویات کو الگ سے دیکھ لیجئے، ابتدائی سکینڈل جس میں وزیر صحت کو ہٹا دیا گیا تھا کے بعد ادویات کی قیمتیں دوبار بڑھیں۔
ایک زمانہ تھا جب اسد عمر کہا کرتے تھے، 40سے45روپے لیٹر پیٹرول فروخت ہو سکتا ہے، اب وہ پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں۔
جب کوئی اس بارے پوچھے کہ حضور آپ اب بھی کچھ تو اس بارے ارشاد فرمائیں؟ مہنگائی سے لوگ بری طرح متاثر ہوئے۔
بیروزگاری میں اضافے کی حالت یہ ہے کہ اڑھائی برسوں میں سوا دو کروڑ لوگ بیروزگار ہوئے، ان میں سے ایک کروڑ پچاس لاکھ افراد مارچ2020ء کے بعد بیروزگار ہوئے، اسی عرصہ میں ساڑھے چار سو روپے کلو ٹماٹر فروخت ہوئے۔
اب بھی کہا جارہا ہے کہ20لاکھ ٹن چینی باہر سے منگوائی جائے گی تاکہ قیمتوں کو اعتدال میں لایا جاسکے۔
یہ دعویٰ بہت عجیب ہے کہ بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی متاثر نہیں ہوتا بلکہ ابتدائی صارف متاثر ہوتا ہے۔
اس دعویٰ پر سردھنئے، زندگی کے حقائق اس سے مختلف ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتے ہی مہنگائی کا ایک نیا سیلاب لوگوں کی زندگی کو مزید اجیرن کر دیتا ہے۔
پچھلے اڑھائی برسوں کے دوران تبدیلی سرکار نے کتنے کام ایسے کئے جان سے عام شہری کو ریلیف ملا ہو؟
کہا یہ جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے، سابقہ حکمران چور لٹیرے ہیں، ہم انہیں این آر او نہیں دیں گے۔ بالکل نہیں دینا چاہئے چوروں اور لٹیروں کو این آر او لیکن دست بدستہ درخواست ہے کہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے نڈھال شہریوں کو ہوسکے تو این آر او ضرور دیجئے کہ ان کا حال یہ ہے کہ کچھ دیر قبل ایک مستحق شہری نے بتایا کہ پچھلے 6ماہ سے صرف ایک وقت کھانا کھاتے ہیں۔
عرض کیا آج سے تعلیمی ادارے کھل جائیں گے، کچھ سہولت ہو جائے گی (یہ شہری ایک سکول کے باہرریڑھی لگاتے ہیں) آنکھوں کے آنسو چھپاتے ہوئے کہنے لگے کہ دعا کریں کیونکہ سکول انتظامیہ نے کہا ہے کہ سکول کے باہر ریٹرھی نہیں لگا سکتے۔
اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے سفید پوش طبقات کا بہت برا حال ہے۔ رواں برس تنخواہوں اور پنشن میں یہ کہہ کر اضافہ نہیں کیا گیا کہ وسائل کم ہیں۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے پہلے وفاقی اداروں کی 40ہزار ملازمتیں ختم کردی گئیں۔
اب ڈاکٹر عشرت حسین والی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ گریڈ ایک سے سولہ تک مزید خالی 78ہزار آسامیاں بھی ختم کر دی جائیں۔
آئی ایم ایف کا دباو یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ بنیادی ٹیرف میں 6روپے اضافہ کیا جائے۔ ٹیرف سلیب مکمل طور پرختم کر کے یکساں نرخ مقرر ہوں اور سبسڈی ختم کر دی جائے۔
جنوری میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ایک روپیہ پچانوے پیسے اضافہ آئی ایم ایف کے احکامات کی تعمیل تھی، جون تک دوبار مزید اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف پنشن ختم کرنے کیلئے دباو دے رہا ہے، ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمتیں مستقل بنیادوں پر نہیں بلکہ تین سے پانچ سال کے معاہدوں پر دی جائیں۔ معاہدوں کی کارکردگی کی بنیاد پر تجدید ہو یعنی پنشن وغیرہ ختم وہ کہتے ہیں ”نہ ہوگا ڈھولا نہ پڑے گا رولا”۔
حکومت کے ذمہ دار کہتے ہیں ہم آئے تو خزانہ خالی تھا۔ان سطور میں عرض کرچکا کہ ایسا ہے تو مجرم نون لیگ نہیں بلکہ عبوری حکومت تھی، اس نے کس اختیار کے تحت وہ احکامات جاری کئے جس کی وہ مجاز نہیں تھی۔
حکومت سمیت ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ نفرتوں کی سیاست کا کاروبار چلتا تو ہے لیکن اس سے خیر خبر نہیں ملتی، مسائل بڑھتے ہیں۔
پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں کی سیاست کو دیکھ لیجئے، نفرت،حسد اور الزامات اس کا رزق تھے، نتیجہ کیا نکلا؟
کسی سے مخفی نہیں۔ دو دوبارنون لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومت الزامات کے تحت ہی رخصت ہوئی، پھر جنرل مشرف تشریف لے آئے اور انہوں نے رج کے9برس حکومت کی،
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بہت ہوگیا، الزامات کی دھول بہت اُڑائی جاچکی، اب کرنے کے کام کیجئے، اڑھائی برس بعد آپ(موجودہ حکمران قیادت) کو پر عوام کے پاس جانا ہے، لوگ یہ نہیں پوچھیں گے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کیساتھ کیا کیا، بلکہ یہ سوال کریں گے کہ پانچ سال میں ہمارے لئے کیا کیا؟
لوگوں کا سوال کرنا ان کا حق ہے کیونکہ آپ انقلاب بھری تبدیلی کے نام پر آئے تھے، تبدیلی اور انقلاب کہیں پیچھے رہ گئے، الزامات کی دھول اُڑی بس دھول ہی تھی۔
پاکستانی سیاست کا المیہ یہی ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے سادھو سنت وہی ہوتی ہے باقی سب چور اور لٹیرے۔ معاف کیجئے گا اب اس سے آگے بڑھ لیجئے، مسائل بہت سنگین ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔
عوام کے دکھوں کی دوا کیجئے کہ یہی آپ کا فرض ہے۔ حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرے۔ بیروزگاری کو کم کرنے کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے ، غربت کی شرح کو کم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے ۔
وزیراعظم کو چاہئے کہ کسی دن کا بینہ کا ایک خاص اجلاس اس موضوع پر بھی منعقد کریں، اپنے رفقا سے مشورہ کریں کہ وہ کیا طریقے ہوسکتے ہیں جنہیں اپنا کر حکومت شہریوں کو ریلیف دے سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author