مئی 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’مومنہ‘‘ والے حافظ جی اور ملتانی منڈلی۔۔۔حیدر جاوید سید

اعلامیہ میں سرائیکی وسیب میں کاٹن کی کم ہوتی پیداوار پر گہری تشویش ظاہر کی گئی تو فقیر راحموں بولے یہ یہود و ہنود کی سازش ہے وہ ہمارے کسانوں کو پیٹ بھر کے کھاتا نہیں دیکھ سکتے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بالآخر ’’مومنہ‘‘ نے ہمارے حافظ جی (حافظ صفوان) کو ملتان یاترا کی اجازت دے دی ہی۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ جی نے ایک طویل عرصہ بعد نہ صرف ملتانی منڈلی کے کٹھ میں شرکت کی بلکہ منڈلی کے اعزاز میں پرتکلف عشائیہ دے کر سابقہ غیرحاضریوں کی تلافی کی ’’سعی‘‘ کی۔
سعی اس لئے لکھا ہے کہ فقیر راحموں کا خیال ہے
’’جتنی حافظ جی کی غیرحاضریاں اور پھر مومنہ والی پوسٹیں ہیں اس حساب سے کم از کم دو عشایئے اور بنتے ہیں اور ان میں سے ایک دریائے چناب کے کنارے ہونا چاہیے‘‘۔
مجھے اس کے ارادے چھے نہیں لگتے عشائیہ اور چناب کے کنارے۔ کہیں اس فقیر راحموں نے چھوٹو گینگ ٹائپ مخلوق سے کوئی سودے بازی تو نہیں کرلی؟
چلیں خیر ہمہ یاراں دوزخ و ہمہ یاراں بہشت والا معاملہ ہی ہے جو ہوگا دیکھاجائے گا۔
حافظ جی بھی سیانے بیانے بندے ہیں اور اب ’’مومنہ‘‘ کی وجہ سے تو مزید سیانے ہوگئے ہیں۔ گیٹ پاس بھی لائے ملتان کااور پھر محفل برخاست ہونے تک ’’چُپ چُپ‘‘ بھی رہے۔
ہمارے حافظ جی تو غضب کے جملہ پھینک واقعہ ہوئے ہیں فیس بک ہو یا ملتانی منڈلی وہ ہر جگہ کمال مہارت سے جملہ اچھالتے ہیں اور سامنے والا ناک آوٹ۔
ملتانی منڈلی انسان دوست زمین زادوں کا اکٹھ ہے۔ منڈلی کی سوغاتیں جب کہیں کسی چھت کے نیچے اکٹھی ہوںتو دنیا جہان کے موضوعات زیربحث آتے ہیں اس بار کچھ عجیب یہ ہوا کہ ملتانی منڈی کے تاحیات قائد نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا کہ شاہ جی نے میری جمہوریت پسندی کو نوازشریف کے کھاتے میں ڈال دیا ہے جبکہ میں ہر جمہوریت پسند کا حامی اورطبقاتی نظام کے ساجھے داروں کا مخالف ہوں۔
قائد محترم کا احتجاج بغور بلکہ ’’چوکنا‘‘ ہوکر سنا گیا لیجے ہم رسید لکھے دیتے ہیں کہ ملتانی منڈلی کے قائد اعلیٰ (یہ منصب ان کے پاس تاحیات ہے) کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں وہ صرف عوامی جمہوریت کے حامی ہیں۔ سول سپرمیسی کا نعرہ انہیں عوامی جمہوریت کے قریب قریب لگتا ہے۔ باقی سب خیروخیریت ہے۔
یہ ملتانی منڈلی والے بھی بڑے عجیب لوگ ہیں اپنے اپنے شعبوں کے معروف (سوائے مجھ طالب علم کے) صاحبان ہیں منڈلی کے ہر کٹھ میں سب سے زیادہ گفتگو شہری آزادیوں کو کاٹنے والی تنگ نظری پر ہوتی ہے درمیان میں ان کتابوں کا ذکر بھی ہوجاتا ہے جو ارکان نے دو اجلاسوں کے درمیانی عرصہ میں پڑھی ہوتی ہیں۔
گاہے گاہے کوئی ایک یا نصف درجن لطیفے بھی مچلتے اچھلتے پھرتے رہتے ہیں۔
ارے ساعت بھر کے لئے رکیئے، ملتانی منڈلی کے متفقہ برادرِ عزیز کاشف حسین سندھو ایک طویل عرصہ سے علیل ہیں منڈلی ان کی صحت و سلامتی کے لئے دعاگو ہے۔ برادر عزیز سے وقفے وقفے سے ٹیلیفون پربات تو ہوجاتی ہے لیکن ملاقات ان کی علالت کے پیش نظر نہیں ہوپارہی۔
وکیل بابو اور مستقل عزیزی کی نوک جھونک کے تو کیا کہنے اس بار منڈلی کے غیر ملکی رکن (ہیں پکے پیٹھے زمین زادے اور سرائیکی، بس دیار غیر میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں) کاشف حسین بھی اجلاس میں شریک تھے۔
ہمارے قائد محترم پر اب ان کے مرحوم بابا جان کی سماجی مصروفیات انجمن سازی اور وحدت و رواداری کے حوالے سے ذمہ داریاں بھی آن پڑی ہیں اس لئے اب انداز تکلم بھی قائدانہ ہوگیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر یاسر سیال ہمیشہ کی طرح اچھے سامع ہیں کبھی کبھی ایک دو سوال اور پھر خاموشی۔ مستقل عزیزی طارق شیراز تو خیر اپنی مثال خود ہیں رہے وکیل بابو ساجد رضا تھہیم تو آپ قدیم و جدید دنیا میں ایک ہی وقت میں جیتے بستے ہیں۔
منڈلی کے ایک رکن ملک محمود مہے اسلام آباد تھے اس لئے حاضر نہ ہوپائے۔ فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ "وہ کہتے یہی ہیں کہ ملازمت کی وجہ سے بلالیا گیا ہوں اصل میں محمودمہے اس داو پر ہے کہ کہیں کوئی آنکھ جھپکے اور وہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیں اس لئے کالی ویسکوٹ ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں”۔
ہم نے اس کی بات ٹوکتے ہوئے کہا وزیراعظم تو شیروانی میں حلف لیتا ہے۔ جواب ملا جس دن محمود مہے کا داو لگا تبدیلی آجائے گی۔ وزیراعظم ویسکوٹ میں حلف لے گا اور حلف دلوانے والا افریقہ کے سانگا قبائل کے ’’قومی لباس‘‘ میں ہوگا۔
ارے صاحب کیا کہا ہم نے اپنے قائد اعلیٰ اور داعی رواداری ملک خاور حسنین بھٹہ کا تعارف نہیں کروایا۔
صاحبو!
اس کی ضرورت ہی نہیں وہ کیا کہا تھا شاعر نے
’’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘‘
بس ہمارے قائد اعلیٰ پوری ملتانی منڈلی کا تعارف ہیں انہیں کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔
بس ان کی خامی کہیں یا خوبی وہ یہ ہے کہ دوستوں میں سے کسی کو ہلکا سا نزلہ بخار کھانسی ہوجائے یہ والدین سے زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں اور پھر چاہتے یہ ہیں کہ بندہ فوری طور پر ’’چنگا‘‘ تھی ونجے۔
ملتانی منڈلی کے حالیہ کٹھ میں بھی بس انہوں نے سب کو ہدایت کی
’’یار احتیاط کیتا کرو اے کرونا وڈا کمینہ ہیوے‘‘
ذات پات تے عمر نیوے پچھدا۔
منڈلی نے حسب دستور اجلاس کے اختتام پر اپنا اعلامیہ جاری کیا جس میں عہد کیا گیا کہ مکمل عوامی جمہوریت کے قیام تک جمہوریت کے لئے تین پانچ قدم چلنے والوں کےلئے نیک جذبات کا اظہار کیا جائے گا۔
اعلامیہ میں سرائیکی وسیب میں کاٹن کی کم ہوتی پیداوار پر گہری تشویش ظاہر کی گئی تو فقیر راحموں بولے یہ یہود و ہنود کی سازش ہے وہ ہمارے کسانوں کو پیٹ بھر کے کھاتا نہیں دیکھ سکتے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: