مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بیرسٹر تاج محمد لنگاہ مرحوم۔۔۔حیدر جاوید سید

اولین اس لئے کہ اس میں شامل قائدین اور کارکنوں کے لئے اپنی اپنی جماعت چھوڑنا ضروری نہیں تھا بلکہ وہ اپنی اپنی سیاسی جماعت میں رہ کر بھی سرائیکی صوبہ محاذ کا حصہ بن سکتے تھے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی قومی تحریک کے بانیوں میں شمار ہونے والے بیرسٹر تاج محمد لنگاہ مرحوم سرائیکی قومی سیاست کے پرعزم قائد تھے۔ لنگاہ صاحب نے عملی سیاست کا آغاز پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم کیا۔
1970ء کے انتخابات میں انہوں نے پی پی پی کے ٹکٹ پر وہاڑی سے کونسل مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد ممتاز دولتانہ کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا اور 73 ہزار سے زائد ووٹ لئے۔
اس نشست پر گو میاں ممتاز دولتانہ معمولی سے فرق سے جیت گئے لیکن نوجوان امیدوار تاج محمد خان لنگاہ کا نصف صدی سے سیاسی میدان میں نمایاں مقام رکھنے والے دولتانہ کے خلاف 73 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرلینا بھی معمولی بات نہیں تھی۔
دولتانہ صاحب بعد ازاں قومی اسمبلی کی نشست اور کونسل لیگ کی صدارت سے مستعفی ہوکر برطانیہ میں پاکستان کے سفیر بن گئے مگر افسوس کہ پیپلزپارٹی نے اس نشست پر تاج محمد خان لنگاہ کو دوبارہ اپنا امیدوار نہ بنایا حالانکہ اس وقت کے ضلع ملتان (وہاڑی بعد میں ضلع بنا) کے پرجوش جیالے اس بات کے حق میں تھے کہ امیدوار تاج محمد لنگاہ کو بنایا جائے۔
پیپلزپارٹی کے دور میں لنگاہ صاحب پارٹی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور ریلوے کے قانونی مشیر رہے۔ بھٹو صاحب کے متعدد بیرون ملک دوروں پر ان کے ہمراہ جاتے رہے۔ انہوں نے اپنے دورہ چین کے حوالے سے سفرنامہ بھی لکھا۔
1977ء میں انہوں نے خورشید حسن میر کے ساتھ مل کر عوامی جمہوری پارٹی کی داغ بیل ڈالی تو ابتدائی طور پر اس نومولود جماعت کا ترقی پسند کارکنوں نے پرجوش خیرمقدم کیا مگر اس کے باوجود یہ جماعت بھرپور عوامی پذیرائی حاصل نہ کرسکی۔
بعد کے برسوں میں تاج محمد خان لنگاہ نے خود کو سرائیکی قومی سیاست کے لئے وقف کردیا۔
1980ء کی دہائی میں جب مرحوم ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ اور سیٹھ عبیدالرحمٰن مرحوم نے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کیا تو تاج محمد خان لنگاہ اس کے صدر منتخب ہوگئے۔
سرائیکی صوبہ محاذ کو بلاشبہ سرائیکی قوم پرست سیاست کا اولین اتحاد کہا جاسکتا ہے۔
اولین اس لئے کہ اس میں شامل قائدین اور کارکنوں کے لئے اپنی اپنی جماعت چھوڑنا ضروری نہیں تھا بلکہ وہ اپنی اپنی سیاسی جماعت میں رہ کر بھی سرائیکی صوبہ محاذ کا حصہ بن سکتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی رجعت پسند جماعتوں کے بعض اکابرین قومی سوال پر سرائیکی صوبہ محاذ کا حصہ بنے۔
سرائیکی صوبہ محاذ کو مختصر عرصہ میں بھرپور عوامی تائید حاصل ہوئی مگر بدقسمتی سے اسی عرصہ میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کی پالیسی اور ہمنوائی سے فرقہ پرست تنظیموں کا ظہور ہوا اور ان کا ابتدائی مرکز سرائیکی وسیب تھا۔ ان شدت پسند تنظیموں کے قیام کے ساتھ ہی سرائیکی وسیب میں نفرت و تشدد اور قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا جس نے سرائیکی صوبہ محاذ کی قوم پرست سیاست کو بری طرح متاثر کیا۔
یہ وہ عرصہ تھا جب ترقی پسند سیاسی شعور کے حامل تاج محمد خان لنگاہ نے سرائیکی قوم پرست جماعت بنانے کے لئے دوستوں اور احباب کے ساتھ سیاسی کارکنوں سے صلاح مشورے کئے۔
لنگاہ صاحب کا خیال تھا کہ سرائیکی قوم پرست جماعت ہی وسیب میں سیاسی کارکنوں کی شعوری تربیت کے ساتھ سیاسی عمل میں ایسا کردار ادا کرسکتی ہے جو حکومت کی سازشوں سے بنے فرقہ پرست ماحول میں قوم پرست سیاست کا جھنڈا بلند کرکے قومی حقوق کے حصول اور صوبہ کے قیام کے لئے جدوجہد کرے۔
تاج محمد لنگاہ کی بات اور سوچ غلط نہیں تھی۔
ایک باشعور اور باخبر سیاست دان کے طور پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ وسیب میں فرقہ پرستی کی نفرتوں اور تشدد کا دروازہ مارشل لاء حکومت نے جان بوجھ کر کھولا ہے۔
جنرل ضیاء الحق درحقیقت اس سامراجی سوچ کے نمائندہ ہیں جو وسیب کے وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔
پاکستان سرائیکی پارٹی کا قیام اسی سوچ اور مستقبل کے حوالے سے عزائم کا مرہون منت تھا۔ انہوں نے سرائیکی قوم پرست پارٹی کی بنیاد رکھی تو سرائیکی لوک سانجھ ، پی پی پی ، اے این پی اور دوسرے ترقی پسند حلقوں اور جماعتوں سے سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد سرائیکی پارٹی میں شامل ہوئی۔
سرائیکی قوم پرست سیاست کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی محقق کے لئے ان کے کردار اور جدوجہد کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہوگا۔
تاج محمد خان لنگاہ نے سرائیکی تحریک کے لئے بے مثال مالی قربانیاں دیں اور پرعزم جدوجہد کے ذریعے سرائیکی قوم کے مقدمہ کو ہمسایہ اقوام کے ساتھ ان جماعتوں کے سامنے بھی رکھا جو وفاقی سیاست کرتی تھیں۔
ان کی پرعزم جدوجہد کے نتیجہ میں ہی مظلوم اقوام کے سیاسی اتحاد ’’پونم‘‘ نے سرائیکی قوم کی تاریخی اور سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک قومی اکائی کے طور پر سرائیکیوں کو ’’پونم‘‘ کا حصہ بنایا۔
انہوں نے سرائیکی صوبہ کے لئے پیپلزپارٹی کے دور میں بنائے گئے پارلیمانی کمیشن کے لئے بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور کمیشن کے سامنے شاندار انداز میں سرائیکی وسیب کا مقدمہ پیش کیا۔
تاج محمد لنگاہ گو آج ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کا جلایا ہوا چراغ سرائیکی قوم پرستوں کی ان کی حقیقی منزل کی طرف رہنمائی کررہا ہے۔
یہ بجا ہے کہ سرائیکی قوم پرست انتخابی سیاست میں موثر پریشر گروپ نہیں بن پائے مگر اس کے باوجود وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کے لئے سرائیکی قومی تحریک اور صوبہ کے مطالبہ کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
اس کا سہرا بلاشبہ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کے سر جاتا ہے۔
تحریر نویس کا ان سے ذاتی تعلق 1970ء کی دہائی میں قائم ہوا اور احترام بھرا یہ تعلق ان کے سانحہ ارتحال تک قائم رہا۔
حق تعالیٰ مغفرت کرے اس مردِ آزاد کی ، تاج محمد خان لنگاہ اپنی مثال آپ تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: