مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہم۔۔۔مبشرعلی زیدی

بیوی کے چہرے پر نامانوس سا تاثر ابھرا۔ اس نے میری طرف رخ نہیں کیا۔ وہ باہر دیکھتی رہی۔ پھر ہولے سے بولی، "کون سی لڑکی؟ بینچ تو خالی ہے۔"
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ایک سیاہ فام بوڑھا ہماری اپارٹمنٹ بلڈنگ کمے سامنے ایک درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھا رہتا ہے۔ میں جب گھر سے نکلتا ہوں، اسے خود کو گھورتا ہوا پاتا ہوں۔ مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ لیکن وہ میری بیوی کو نظر نہیں آتا۔” میں نے ڈاکٹر ایرک کو بتایا۔
انھوں نے مجھے ایسا دیکھا جیسے میں جھوٹ بول رہا تھا۔ کسی بھی شخص یا ڈاکٹر سے ایسے ردعمل کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن ذہنی امراض کے معالج کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر ایرک ماہر نفسیات ہیں۔
"کیا آپ کو میری بات کا یقین نہیں آیا؟” میں نے پوچھا۔
انھوں نے سر جھٹکا جیسے کسی فضول خیال سے جان چھڑا رہے ہوں۔ پھر کہا، "مجھے اس بارے میں مزید بتائیں۔”
میں نے انھیں تفصیل سے ساری بات بتائی، "ہم حال میں امریکی ریاست ورجینیا کے چھوٹے سے شہر الیگزینڈریا منتقل ہوئے ہیں۔ دریائے پوٹومیک کے قریب یہ بہت خوبصورت مقام ہے۔ چاروں طرف ہریالی ہے۔ کوئی چھوٹی بڑی سڑک ایسی نہیں جس کے دونوں طرف درختوں کی قطار نہ ہو۔ ہر مکان اور اپارٹمنٹ بلڈنگ کے اطراف سبزہ ہے جہاں دن بھر رنگ برنگے خوش گلو پرندے چہچہاتے رہتے ہیں۔
"ہمیں وہ علاقہ بہت پسند آیا ہے۔ میرے پاس گاڑی نہیں ہے۔ لیکن اچھی بات ہے کہ واشنگٹن کے لیے بس قریب سے مل جاتی ہے جہاں میرا دفتر ہے۔ میں روزانہ صبح گھر سے نکلتا ہوں اور سورج چھپنے سے پہلے واپس آجاتا ہوں۔
"سب کچھ ٹھیک ہے، سوائے اس ایک مسئلے کے۔ میں جب گھر سے نکلتا ہوں، وہ سیاہ فام بوڑھا سامنے بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ وہاں نہ بیٹھا ہو۔ وہ جیسے منظر کا حصہ بن گیا ہے۔ وہ کچھ نہیں بولتا۔ بس ٹکٹکی باندھ کے مجھے دیکھتا رہتا ہے۔ آپ ایک آدھ بار نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص روزانہ ایسا ہی کرے؟”
ڈاکٹر ایرک نے توجہ سے میری بات سنی۔ پھر دریافت کیا، "اس شخص کی کیا عمر ہوگی؟ صورت شکل کیسی ہے؟”
میں نے سوچ کر کہا، "اس کی عمر ستر پچھتر کے لگ بھگ ہوگی۔ بھنویں سفید ہوچکی ہیں۔ سر پر ہیٹ، پیروں میں جوتے اور پرانا کوٹ پہنے رہتا ہے۔ میں ہیٹ، کوٹ یا جوتوں کا رنگ نہیں بتاسکتا کیونکہ جب بھی اس پر نظر پڑتی ہے، اس کی سرخ آنکھیں اپنے جسم میں گھستی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ شاید کسی اور کے ساتھ ایسا ہوتا ہو تو اسے گھبراہٹ نہ ہوتی ہو۔ لیکن مجھے اکثر گھبراہٹ ہوتی ہے۔”
ڈاکٹر ایرک کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوگئیں۔ انھوں نے مشورہ دینا چاہا، "اچھا ہوتا کہ آپ اس سے مخاطب ہونے کی کوشش کرتے۔”
"میں یہ کوشش کرچکا ہوں۔” میں نے انھیں آگاہ کیا، "ایک بار میں نے قریب سے گزرتے ہوئے گڈ مارننگ کہا لیکن اس نے جواب نہ دیا۔ ایک بار قریب جاکر کھڑا ہوگیا جیسے کسی کا انتظار کررہا ہوں لیکن وہ خاموشی سے دیکھتا رہا۔ ایک دن گھبراہٹ پر قابو پاکر اسی بینچ پر جا بیٹھا۔ لیکن اس نے زبان نہ کھولی۔ بس اتنا کیا کہ گردن موڑ کے مجھے دیکھنے کے بجائے خلا میں گھورتا رہا۔ لیکن جیسے ہی میں اٹھا، اس نے پھر مجھ پر نظر جمالی۔”
"ایسا کتنی بار ہوا ہے کہ آپ کو وہ شخص دکھائی دیا ہو لیکن آپ کی بیوی کو نہیں؟”
"ظاہر ہے کہ ہمیشہ۔ ورنہ میں آپ کے پاس کیوں آتا؟” میں نے ناگواری سے کہا، "میں دن میں ایک دو بار بیوی سے کہتا ہوں، ذرا باہر تو جھانکو۔ ہمارے کچن کی کھڑکی سے سامنے کا منظر نظر آتا ہے۔ بیوی کھانا بناتے ہوئے، برتن دھوتے دھوتے گردن گھماکر دیکھتی ہے۔ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا بینچ پر وہ بوڑھا بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کہتی، نہیں۔ وہاں کوئی نہیں ہے۔ پھر میں وہاں جاکر دیکھتا ہوں۔ بوڑھا درخت کے نیچے بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔”
ڈاکٹر ایرک نے اپنے سامنے لکھے رائٹنگ پیڈ پر کئی لکیریں کاڑھیں۔ چند لفظ لکھے۔ ایک دو ہندسے تحریر کیے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ انھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔
"آپ نے مجھے بتایا تھا کہ میں اینزائٹی کا مریض ہوں اور اس بیماری میں دماغ انسان کو دھوکا دیتا ہے۔ کیا بیماری بڑھ رہی ہے؟” میں نے جاننا چاہا۔
"اینزائٹی میں ایسا نہیں ہوتا۔” ڈاکٹر ایرک نے کہا، "اس میں الزائمر کی طرح یادداشت خراب نہیں ہوتی۔ مائیگرین کی طرح سر میں درد نہیں ہوتا۔ اسکڈزوفرینیا کی طرح پراسرار آوازیں نہیں آتیں۔ ہسٹیریا کی طرح دورے نہیں پڑتے۔
اینزائٹی میں صرف یہ ہوتا ہے کہ دماغ آپ کو دھوکا دیتا ہے۔ لیب رپورٹ کے مطابق آپ کا ہاضمہ ٹھیک ہوتا ہے لیکن وہ غلط سگنل دیتا ہے کہ پیٹ خراب ہے۔ کمپیوٹرائز آئی ٹیسٹ کے مطابق آنکھیں ٹھیک ہوتی ہیں لیکن آپ کو دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ ای سی جی کے مطابق آپ کی دھڑکن معمول پر ہوتی ہے لیکن آپ پیپلپٹیشن محسوس کرتے ہیں۔
آپ میرے مشورے پر ایک ٹیبلٹ لے رہے ہیں جس سے دماغ دھوکا دینا بند کردیتا ہے اور دل، آنکھیں اور ہاضمہ سب قابو میں آجاتے ہیں۔ اگر آپ ٹیبلٹ نہیں لیں گے تو اور مسائل ہوں گے لیکن کوئی ناموجود شخص نظر نہیں آئے گا۔ کیا آپ کے خاندان میں کسی کو اسکڈزوفرینیا رہا ہے؟”
"نہیں۔ میں یہ بات آپ کو پہلے کئی بار بتاچکا ہوں۔” میں نے یاد دلایا۔
"ممکن ہے کہ آپ کے دماغ میں کیمیکلز زیادہ متاثر ہورہے ہوں۔ میں ایک بلڈ ٹیسٹ لکھ رہا ہوں اور ایک ہفتے کے لیے دوا بڑھا رہا ہوں۔ اس سے آپ کو نیند زیادہ آسکتی ہے۔ بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ آجائے گی تو پھر شاید دوا بدلنی پڑے۔” ڈاکٹر ایرک نے نسخہ میرے حوالے کیا۔
اس کے بعد انھوں نے مشورہ دیا، "کوشش کریں کہ گھبرانے کے بجائے خود اس بینچ پر جاکر بیٹھیں۔ اس طرح وہم دور ہوتا ہے۔ آپ اپنے دماغ کو راہ راست پر لاسکتے ہیں۔ حقیقت اور الوژن کا فرق سمجھا جاسکتے ہیں۔”
میں ان سے ہاتھ ملاکر باہر نکل آیا۔ راستے بھر الٹے سیدھے خیالات آتے رہے۔ سوچتا رہا کہ اگر میرا دماغ بھٹک رہا ہے تو ممکن ہے، مجھے اس بوڑھے کے علاوہ بھی ایسے لوگ نظر آتے ہوں جو وجود نہ رکھتے ہوں۔ ابھی مجھے احساس نہیں ہورہا۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں پتا چلے۔
گھر کے قریب بس سے اتر کے میڈیکل اسٹور سے دوا خریدی۔ ایک گولی وہیں نگل لی اور سیٹی بجاتا ہوا گھر کا رخ کیا۔ شام کا وقت تھا۔ موسم حسین تھا۔ میرا موڈ خوشگوار تھا۔ پھر ایک انہونی ہوئی۔
میں گھر کے سامنے پہنچا تو وہ بوڑھا غائب تھا۔ درخت کے نیچے بینچ پر ایک سولہ سترہ سالہ لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھا۔ لڑکی بھی میری طرف متوجہ ہوگئی۔ میں گھر جانے کے بجائے اس بینچ کے دوسرے کونے پر بیٹھ گیا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ گولی اتنی جلدی اثر کرسکتی ہے۔ مجھے بے حد خوشی محسوس ہورہی تھی۔
پھر اس سیاہ فام لڑکی نے گلوگیر آواز میں کہا، "روزانہ یہاں اس بینچ پر میرے دادا بیٹھا کرتے تھے۔ گزشتہ شب ان کا انتقال ہوگیا۔”
مجھے اتنے زور کا جھٹکا لگا کہ گرتے گرتے بچا۔ "کیا مطلب؟ وہ بزرگ جو روزانہ یہاں بیٹھے رہتے تھے؟ جن کی بھنویں سفید تھیں؟ جو ہیٹ پہنے رہتے تھے؟ وہ آپ کے دادا تھے؟”
لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں عجیب سی کیفیت کا شکار ہوگیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں۔ اس لڑکی کو تسلی دوں یا اپنا وہم دور ہونے پر خوشی کا نعرہ لگاؤں۔ میں ایک لفظ نہ بول سکا اور اٹھ کر گھر چلا آیا۔
میں گھر میں داخل ہوا تو بیوی نے مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ میں صوفے پر گرگیا۔ بیوی رات کا کھانا بنارہی تھی۔ میں کچھ دیر اس بوڑھے اور اس کی پوتی کے بارے میں سوچتا رہا۔ یاد کرنے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے نکلا تھا تو کس دھن میں تھا؟ اس کی عدم موجودگی پر غور کیوں نہیں کیا۔ پھر کچن میں جاکر کھڑا ہوگیا۔
"آپ ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔ کیا بات ہوئی؟” بیوی نے دریافت کیا۔
"ڈاکٹر کی بات چھوڑو۔ ایک حیرت انگیز بات سنو۔ وہ بوڑھا جو روزانہ مجھے نظر آتا تھا، وہ آج نظر نہیں آیا۔” میں نے اسے آگاہ کیا۔
"واقعی؟ یہ تو بہت اچھی خبر ہے؟” بیوی نے خوشی کا اظہار کیا۔
"ہاں۔ میں واپس آیا تو وہ بینچ پر نہیں بیٹھا تھا۔ ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ بوڑھا اس کا دادا تھا۔ اس کا انتقال ہوگیا ہے۔ وہ میرا وہم نہیں تھا۔” میں نے جلدی جلدی بتایا۔
پھر مجھے خیال آیا اور میں نے چونک کر کہا، "لیکن وہ حقیقت میں وجود رکھتا تھا تو تمھیں کیوں نظر نہیں آتا تھا؟”
اس کے بعد میں اور میری بیوی کئی منٹ تک خاموشی سے ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔
پھر ہم دونوں نے کھڑکی کا رخ کیا۔ سورج ڈھل چکا تھا اور اسٹریٹ لیمپس کی تیز مصنوعی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔
میں نے بیوی سے کہا، "وہ دیکھو۔ وہ لڑکی بدستور بینچ پر بیٹھی ہوئی ہے۔”
بیوی کے چہرے پر نامانوس سا تاثر ابھرا۔ اس نے میری طرف رخ نہیں کیا۔ وہ باہر دیکھتی رہی۔ پھر ہولے سے بولی، "کون سی لڑکی؟ بینچ تو خالی ہے۔”
۔
میری یہ کہانی "وہم” بھائی قاسم یعقوب کے نقاط میں شائع ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: