نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئے ہائی جیکرز۔۔۔رؤف کلاسرا

چاسی کے الیکشن میں بڑی جماعتوں کے بائیکاٹ کرنے سے بھی ایسے لوگ پارلیمنٹ تک پہنچ گئے جن کی ذہنیت اور اپروچ گلی محلے کے کونسلر کی سی تھی۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مریم نواز کو لاہور میں کھوکھر برادرز کے گھر اظہارِ یکجہتی کے بعد میڈیا کے ساتھ ان کی ہمدردی میں گفتگو کرتے دیکھ کر حیرانی نہیں ہوئی۔جن کھوکھر بھائیوں نے سپریم کورٹ میں نوازشریف اور مریم نواز کی ضمانتوں کیلئے کروڑوں کے ضمانتی مچلکے جمع کرا رکھے ہوں اور اپنی جائیدادیں گروی رکھوا دی ہوں ان کے خلاف آپریشن ہو تو آپ کیسے ان کے گھر نہیں جائیں گے؟شاید ہی کوئی سیاستدان یا سیاسی جماعت ملے جس کو پراپرٹی ڈیلرز یا ٹھیکیداروں کی سرپرستی حاصل نہ ہو۔سیاست ہمیشہ سے مالدار لوگوں کا کام رہا ہے‘سنا ہے بھٹو دور تک لوگ جیب سے پیسہ خرچ کرتے تھے۔

جن کے پاس زمینیں تھیں وہ ہر سال کچھ ایکڑ بیچ کر سیاست کرتے تاکہ علاقے میں پگ اونچی رہے اور ڈپٹی کمشنر بہادر کے ساتھ دعا سلام رہے۔کسی کا باغ بکتا تو سال بھر کا خرچہ نکل آتا یا بُرے حالات میں بینک سے قرضہ لے کر سیاست میں مصروف رہتے‘ لیکن یہ نہ سنا گیا کہ کسی سے پیسے مانگے یا کسی ایسے بندے کے ساتھ ملے ہوئے ہوں جو اِن پر پیسے خرچ کرے اور کل کلاں سود سمیت واپس لے۔ذاتی وقار اور خاندانی نام پر دھبہ نہ آنے دیتے‘ جیب سے خرچ کرتے۔ مہمان نوازی کا کلچر تھا‘ ڈیرے داری چلتی اور سب کچھ ذاتی جیب سے ہوتا۔ اکثر زمیندار بینکوں سے قرضہ لے کر بڑی گاڑیاں خریدتے تاکہ بھرم قائم رہے۔

خاندانی وقار تھا‘اَنا تھی‘ کچھ پگ کا لحاظ تھا۔ سیاست میں عزت کا خیال رکھا جاتا تھا۔اور پھر ضیا دور میں یہ سوچ کر کاروباری طبقہ آگے لایا گیا کہ فیوڈل ازم سب مسائل کا ذمہ دار ہے‘اگر شہری بابوز‘جو روزانہ شیو کرتے‘ تھری پیس سوٹ اور چمکتے جوتے پہنتے‘ چمکتی گاڑیوں پر سفر کرتے‘ درست تلفظ کے ساتھ اردو اور انگریزی بولتے ہیں‘ پارلیمنٹ پہنچ گئے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ یوں 1985 ء کے الیکشن کے بعد پارلیمنٹ میں ایک ایسی کلاس داخل ہوئی جو ملک کی تقدیر بدلنے آئی تھی‘ مگر اِن کو لانے والے بھول گئے کہ یہ سیاست کو عبادت یا نظریے کے تابع نہیں سمجھتے۔یہ نقد سودا کرنے کے قائل ہیں‘ ان کے ہاں ادھار کا رواج نہیں۔ سیاست ان کیلئے ذاتی کاروبار کا درجہ اختیار کرگئی جس میں انہیں روزانہ پرافٹ چاہیے تھا۔

بینکوں سے اربوں کے قرضے معاف کرائے۔ صحافی کو جیسے روز ایک خبرکی تلاش ہوتی ہے‘ ان نئے سیاستدانوں کو ٹھیکے‘ کمیشن یا ڈیل چاہئے تھی۔ پچاسی کے الیکشن میں بڑی جماعتوں کے بائیکاٹ کرنے سے بھی ایسے لوگ پارلیمنٹ تک پہنچ گئے جن کی ذہنیت اور اپروچ گلی محلے کے کونسلر کی سی تھی۔

وزیرخزانہ محبوب الحق نے ترقیاتی فنڈز کے نام پر مال دینا شروع کیا تو اس فنڈ سے انہیں کمیشن کھانے کا چسکا لگا۔ اس سے پہلے اگر پرمٹ کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا تو اب ترقیاتی فنڈز کے نام پر ہر ایک کی جیب میں کچھ نہ کچھ جانے لگا۔

سب کی چونچیں گیلی ہونا شروع ہو گئیں۔ ساتھ ہی ان صاحبان کو ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران کا کنٹرول دے دیا گیا۔ سکولوں کے استاد وں‘ استانیوں اور ڈاکٹروں کے تبادلوں کے اختیارات بھی مل گئے۔ سیاسی مخالفوں کی ماں بہنوں کے تبادلے معمول بن گئے۔ ووٹ لینے کیلئے جو جتنا گر سکتا تھا‘ وہ گرگیا۔ جب دوسروں نے دیکھا کہ سیاست تو خاصا منافع بخش کاروبار ہے‘طاقت بھی ہے اورپیسہ بھی تو سب نے سیاست کا رخ کیا۔

کچھ نے پیسے کے بل بوتے پر سیاست شروع کی تو کچھ نے سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کو فنڈنگ شروع کر دی۔ یہ ایک طرح کی سرمایہ کاری تھی کہ الیکشن کے دنوں میں چند لاکھ روپے مختلف امیدواروں کو عطیہ دے کر اپنا اثرورسوخ پکا کر لیا۔ کسی نے الیکشن پوسٹر بنوا دیے‘ کسی نے کرائے پر گاڑیاں لے دیں تو کسی نے پٹرول ڈلوا دیا‘ کسی نے صاحب کو الیکشن جیتنے پر نئی گاڑی لے دی کہ اس پر لاہور یا اسلام آباد اسمبلی کا حلف لینے جائیں۔اس کے بدلے انہوں نے سرکاری ٹھیکے لینے شروع کیے جس میں ایم این اے اور ایم پی اے یا وزیر کا باقاعدہ حصہ رکھ دیا گیا۔

سرکاری بابوز بھی ان کے ساتھ مل گئے کہ ہماری پوسٹنگ کرا دو‘ پروموشن کرا دو پھر پوری دلّی لوٹ لو۔ نوکریوں کے کوٹے دیے گئے جو انہوں نے بیچ کر مال کمایا اور الیکشن کے اخراجات پورے کیے۔ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور وزیر لیول پر بڑے پروجیکٹس میں پیسہ کمایا گیا جو منی لانڈرنگ کر کے بیرونِ ملک بھیجا گیا۔ شریفوں نے حدیبیہ میں منی لانڈرنگ کی تو زرداری نے سوئس بینک بھر دیے‘ جہانگیر ترین نے لندن مال بھیجا اور وہاں جائیدادیں خریدیں اور تحریک انصاف میں اپنے جہاز سمیت گھس گئے۔ ساتھ ہی پراپرٹی ڈیلرز لاکھوں جیب میں ڈالے ان کاروباری سیاستدانوں کے دروازوں پر پہنچ گئے۔

انہوں نے پارٹی فنڈ کے نام پر ان کی چونچیں گیلی کیں۔ اب ہر کاروباری کیلئے ضروری تھا کہ ان کا ایک بچہ سینیٹ یا قومی اسمبلی میں موجود ہو تاکہ ان کے کاروباری مفادات کا خیال رکھ سکے۔ اب شوگر ملیں ان سیاستدانوں نے لگانا شروع کیں۔ اربوں روپیہ خود ہی اپنی ملوں کو سبسڈی کے نام پر دیا جانے لگا۔

کچھ زیادہ سمجھدار نکلے تو بجلی گھروں میں حصہ ڈال دیا جہاں بجلی کے ایک یونٹ کے ہیر پھیر میں ایک دن میں اربوں کمائے جاتے ہیں‘ باقی نے خاندانی بچوں کو پارلیمنٹ بھیج کر وہاں قائمہ کمیٹیوں میں بیٹھ کر بیوروکریسی کو رگڑا لگا کر ان سے اپنے سب جائز ناجائز کام کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ کاروبار کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے یا ان پر ہاتھ ڈالنے والے قوانین اور افسران تبدیل کرائے۔ جس بابو نے کام کر دیا اس کی کمیٹی اجلاسوں میں بلے بلے اور جو نہ کرسکا اس کی مٹی پلید کردی۔

سرکاری افسران بھی ان کے گھریلو ملازم کا کردار ادا کرنے لگے‘ جس کو پوسٹنگ چاہیے تھی اس نے ان پراپرٹی ڈیلروں کا سہارا لیا۔ بدلے میں یہی افسران انہیں زمینوں پر قبضے کرانے میں مدد دینے لگے۔ پیسہ ہی ایمان بن گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں چند سینیٹرز اور ایم این ایز‘جن میں خواتین بھی شامل تھیں‘ نے ترقیاتی فنڈز لکی مروت کے ٹھیکیداروں کو بیچے۔

ایک کروڑ پر بیس لاکھ روپے۔ واٹر سکیم کے نام پر چند لاکھ روپے لگا کر بقیہ اسی نوے لاکھ روپے ٹھیکیدار اور ایم این ایز نے بانٹ لیے۔ نواز شریف کی باری آئی تو اپنے داماد کیپٹن صفدر کو بیس ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کی رکھوالی پر بٹھا دیا۔ ایم این ایز کو کہا کہ روکڑا چاہیے تو کیپٹن صفدر کو راضی کرو۔ اب اس حکومت نے بھی یہی کیا ہے‘ رپورٹ آئی ہے کہ ہر ایم این اے کو پچاس پچاس کروڑ روپے کا ترقیاتی فنڈ دیا جائے گا۔پٹرول‘گیس اور بجلی کی قیمتیں روز بڑھا کر یہ اربوں جمع کر کے ان ایم این ایز کو دیے جاتے ہیں۔

اخبار میں ایک ہی دن دو خبریں ساتھ ساتھ چھپی ہیں۔ ایک خبر ہے کہ حکومت پچاس پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز دے گی تو دوسری خبر ہے کہ بجلی کی قیمت فی یونٹ ساڑھے تین روپے بڑھائی جائے گی۔ یہی عمران خان ترقیاتی فنڈز کو رشوت قرار دیتے تھے۔

سیاست کرپشن سے آلودہ تو پہلے تھی اب گالی گلوچ سے کیچڑ زدہ ہوگئی ہے۔ اب شریف لوگوں کا کام سیاست نہیں رہا۔ جس کے پاس سوشل میڈیا پر مخالفوں کو گالیاں دلوانے کیلئے سوشل میڈیا ٹیموں کے اخراجات اٹھانے کا بجٹ ہے‘ ٹی وی پر مخالفوں کا ناطقہ بند کرنے کا بندوبست ہے‘ جیب میں وہ ٹھیکیدار ہیں جو اخراجات اٹھائیںیا بڑے کاروباری جو آپ کی پارٹیوں اور ذاتی منصوبوں کو بھاری عطیات دیں‘ وہی اب سیاست کرسکتے ہیں۔ اب پاکستانی سیاست ان ٹھیکیداروںکے بغیر نہیں چل سکتی۔

اس لیے انہیں اگر سوئی بھی چبھے گی تو یہ سب ایسے دوڑے جائیں گے جیسے مریم نواز گئی ہیں۔پہلے کہا جاتا تھا کچھ جنرل ہر دس سال بعد مارشل لا لگاکر سیاست اور سیاستدانوں کو ہائی جیک کرتے ہیں‘اب یہ کام ٹھیکیدار‘ قبضہ گروپس اور پراپرٹی ڈیلر کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

About The Author