مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں جوش و خروش والی عزاداری کا ذکر میں نے خانیوال میں سن لیا تھا۔ پہلا محرم 1985 میں کیا جب بارہ سال کا تھا۔ کسی اور محلے میں رہتے تو وہ تجربہ نہ ہوتا جو انچولی میں قیام کی وجہ سے ہوا۔ چاند نظر آتے ہی لوگوں نے سیاہ لباس پہن لیے۔ گلیوں میں سبیلیں لگ گئیں۔ دن میں خواتین اور شام کو مردوں کی مجالس کا آغاز ہوا۔ کیسٹوں کی دکان پر گانے بند ہوگئے اور نوحے سنائی دینے لگے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ شرح کے اعتبار سے شیعہ شاعروں اور صحافیوں کی تعداد زیادہ کیوں ہوتی ہے؟ پیدا ہوتے ہی مجلس، مرثیے اور نوحے سنائی دیں گے تو اور کیا ہوگا؟ زبان سنور جاتی ہے۔ معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ محاورے، استعارے اور تشبیہیں ازبر ہوجاتی ہیں۔ شوق جنم لیتا ہے۔
میں نے نوحے سنے تو خود بھی شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ ایک نوحہ لکھا اور انجمن فدائے اہلبیت کے صاحب بیاض یعنی نوحے پڑھنے والے قمر بھائی کو دیا۔ انھوں نے پیٹھ ٹھونکی اور طرز خود بنانے کا وعدہ کیا۔ میں بچپن والی بے چینی کا شکار ہوگیا۔ روز ان سے پوچھتا تھا اور وہ روز ٹال جاتے تھے۔ محرم گزر گیا لیکن انھوں نے نوحہ نہیں پڑھا۔
ان دنوں فدائے اہلبیت انیس پہرسری کے نوحے زیادہ پڑھتی تھی۔ بلکہ ہر دوسری انجمن کے پاس انھیں کے نوحے ہوتے تھے۔ کراچی کی کوئی انجمن دوسری انجمن کا نوحہ نہیں پڑھتی۔ شہر میں طرحی شب بیداریاں ہوتی ہیں جن میں ہر انجمن مصرعہ طرح پر نوحہ لکھوا کے آتی ہے۔ ایک ایک شاعر کئی کئی انجمنوں کو ایک ہی طرح پر نوحے لکھ کے دیتے تھے۔ اب بھی دیتے ہوں گے۔
انچولی میں بچوں کی ایک انجمن کا نام دستہ پنجتنی تھا۔ میں نے اس میں شمولیت اختیار کرلی۔ نیا نیا کراچی پہنچا تھا اس لیے محلے میں دوست نہیں تھے۔ انجمن میں شامل ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں سے تعارف ہوا اور ہم عمر لڑکے دوست بنے۔ ان میں اظفر تھا جو اب کینیڈا میں رہتا ہے۔ رضا تاؤ تھا جو عید غدیر پر برکتی روپے تقسیم کرنے والے عباس صاحب کا بھتیجا ہے۔ کاشف تھا جسے لالو کھیت سے تعلق کی وجہ سے سب کھیتی کہتے تھے۔ پنجتن تھا جسے بعد میں سنجے دت جیسے بال رکھنے پر پنجے دت کا خطاب ملا۔ نواب بھائی کا بیٹا کامران مامن تھا جو فرسٹ کلاس کرکٹر بنا۔ تقی اشرف تھا جو برسوں بعد زنجیر کا زوردار ماتم کرنے سے انتقال کرگیا۔
دستہ پنجتنی کا صاحب بیاض ذاکر میرا دوست تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ میں نوحے لکھنے کی مشق کررہا ہوں تو وہ مجھے انیس پہرسری سے ملوانے لے گیا۔ وہ رضویہ امام بارگاہ میں کام کرتے تھے۔ ہم ٹو ڈی روٹ کی بس میں وہاں پہنچے۔ وہ امام بارگاہ کے دفتر میں موجود تھے۔ میں نے ادب سے سلام کیا۔ ذاکر نے تعارف کروایا۔ پھر میرے دو نوحے انھیں پیش کیے۔
انیس صاحب خوش اخلاق آدمی تھے۔ لیکن اس وقت خفا ہوگئے۔ کہنے لگے، آج کل ہر دوسرا آدمی نوحہ خواں بنا پھرتا ہے۔ نہ شاعری آتی ہے، نہ علم ہے۔ احترام تقدس سب ختم ہوگیا ہے۔ مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ واپسی میں ذاکر نے کہا، کوئی بات نہیں۔ ہم ریحان اعظمی کے پاس جائیں گے۔
ریحان اعظمی ان دنوں بھی غضب کے نوحے لکھتے تھے۔ میں نوحوں کا جو کیسٹ خریدتا، اس میں ایک دو اور کبھی کبھی تمام نوحے انھیں کے لکھے ہوئے ہوتے۔ میں کیسٹ سے نوحے سن کر انھیں ڈائری میں لکھ لیتا تھا۔ جیسے مبتدی شاعر اساتذہ کی زمینوں میں غزلیں کہتے ہیں، میں ریحان اعظمی کے نوحوں کی طرزوں پر تک بندی کرتا تھا۔
پھر ایک سال، غالباً 1988 میں سنا کہ ریحان اعظمی کے نوحوں کی پہلی کتاب منظر بہ منظر کربلا شائع ہورہی ہے۔پانچ یا چھ محرم کو علامہ عرفان حیدر عابدی کی مجلس سے قبل بارگاہ شہدائے کربلا کے باہر ایک اسٹال لگا اور سب سے پہلا نسخہ میں نے خریدا۔ وہ کتاب آج بھی میری لائبریری میں موجود ہے۔
ریحان اعظمی سے میری پہلی ملاقات ذاکر کے گھر پر ہوئی۔ چہلم ہوچکا تھا۔ اس کے بعد مجلسوں اور جلوسوں میں الوداعی نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ ریحان بھائی گلی سے گزر رہے تھے کہ ذاکر نے، یعنی بچوں کی انجمن کے صاحب بیاض نے، جو خود بھی بچہ ہی تھا، ان کا دامن پکڑ کے کہا کہ ہمیں ایک الوداعی نوحہ لکھ دیں۔ بیٹھک کھلی ہوئی تھی۔ ریحان بھائی اس میں جاکر بیٹھ گئے۔ چائے منگوالی گئی۔ چائے ختم ہونے سے پہلے ریحان اعظمی نوحہ مکمل کرچکے تھے۔
ریحان اعظمی گفتگو کم کرتے تھے کیونکہ بات کرتے ہوئے ہکلاتے تھے۔ کسی لفظ پر اٹک جاتے تو دیر تک منہ سے نہ نکلتا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ منبر پر بیٹھ کر سلام پڑھتے ہوئے بالکل نہیں اٹکتے تھے۔ شعر ایسے پڑھتے جیسے زندگی میں کبھی ہکلائے ہی نہ ہوں۔
میری ان سے دوسری ملاقات ایک دو سال بعد چہلم کے بعد ہی کے دنوں میں ہوئی۔ اس وقت تک میرے کئی نوحے دو تین انجمنیں پڑھ چکی تھیں۔ نوحے کم پڑھے گئے تھے لیکن شہرت خوب ہوچکی تھی۔ کئی دوست نام کے بجائے شاعر اہلبیت کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ ایسے میں ذاکر نے کہا کہ امام حسن کی شہادت کا دن آرہا ہے لیکن ہمارے پاس ان کا کوئی نوحہ نہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ سب شاعر کربلا والوں کے نوحے لکھتے ہیں۔ دوسرے اماموں کی شہادت کی مناسبت سے اکا دکا ہی نوحے ملتے ہیں۔
ذاکر کے تقاضے پر میں نے نوحہ لکھا لیکن اس سے کہا کہ اس پر اصلاح کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم دونوں ریحان بھائی کے گھر پہنچے۔ ان دنوں وہ انچولی میں رہتے تھے۔ پتا نہیں کتنے مصروف ہوں گے۔ ہم اچانک پہنچ گئے لیکن انھوں نے خوشی سے استقبال کیا اور فوراً نوحے کا جائزہ لے کر اپنے قلم سے اصلاح کردی۔ بلکہ ذاکر کو ایک نوحہ خود بھی لکھ کر دیا۔
میں نے کئی سال بعد آج ذاکر کو فون کرکے پوچھا کہ کیا تمھیں امام حسن کا نوحہ یاد ہے؟ اس نے جھٹ دو مصرعے یا ددلائے،
حسن کا ٹکڑے جگر ہوا ہے
علی کا گھر کربلا بنا ہے
ایک آدھ سال بعد کی بات ہے کہ خیرپور سے کراچی منتقل ہوئے ایک صاحب بیاض نے مجھ سے نوحے دینے کی فرمائش کی۔ میں نے ایک نوحہ دیا جو انھیں بہت پسند آیا۔ انھوں نے کئی جگہ پڑھا۔ پھر دوسرا نوحہ مانگا۔ میں نے تازہ کلام پیش کیا۔ چند دن بعد وہ صاحب اپنی انجمن کے دو تین ساتھیوں سمیت ملاقات کو آئے اور الزام لگایا کہ میں نے کسی شاعر کا نوحہ اپنے نام سے انھیں دیا ہے۔ میں ہکابکا رہ گیا۔ ان سے کہا کہ بے شک میں کچا شاعر ہوں لیکن سرقے والا کام نہیں کرتا۔ آپ نے الزام لگایا ہے تو ثابت کیجیے۔ شاعر کے نام کے ساتھ کلام پیش کیجیے۔ وہ وعدہ کرکے چلے گئے۔
اس بات کو تیس سال ہوچکے ہیں۔ آج تک وہ صاحب الزام کا ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ میرا جی ایسا کھٹا ہوا کہ اپنی بیاض پھاڑ کے پھینک دی اور اس کے بعد کبھی نوحہ نہیں لکھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر