عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف ادیب و قانون دان قیصر عباس صابر کی کتاب کی تقریب رونمائی بعض حوالوں سے تاریخی ثبوت فراہم کرنے کا سبب بن گئی –
اس تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ میں نے سوچا تھا کہ بتاؤں گا کہ برٹش ضلع ملتان کی سیاست میں قتال پور کے سید برادران کے اندر برسوں سے یہ خواہش پنپا کرتی تھی کہ کسی طرح وہ ملتان کی سیاست میں قائم گیلانی سادات کی برتری کو ختم کردیں- اور یہ خواہش پاکستان بننے کے بعد اور شدت اختیار کرگئی – سید برادران کو قریشی-گیلانی ثنویت کو تثلیث میں بدلنے کا ایک موقعہ 1982ء کے ڈسٹرکٹ کونسل ملتان کے انتخابات میں نظر آیا جب اُن کا ساتھ جاوید ہاشمی نے بھی دیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع کونسل ملتان کی چییرمین شپ قریشی-گیلانی گروپوں سے باہر جانے کے خطرے کے پیش نظر دونوں گروپ پہلی بار مل گئے اور یوں کافی مشکل سے سید یوسف رضا گیلانی چئیرمین ضلع کونسل ملتان بنے-
میں نے برٹش پنجاب میں انگریزوں کی سوشل انجئیرنگ، اس سے مربوط زمیندار اشرافیہ پر مبنی یونینسٹ پارٹی اور اس کے اندر سے زمیندار اشرافیہ کا آل انڈیا مسلم لیگ کا حصہ بن جانا اور پنجاب کے دیہی سماج کو فرقہ واریت سے پاک رکھنے میں یونینسٹ پارٹی کی زمیندار اشرافیہ کا کردار اور اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی اور پھر اسّی کی دہائی میں پنجاب کے دیہی علاقوں میں شناخت کے نام پر مارا ماری کے ظہور کے پیچھے وجوہات اور سید گروپ کے زوال کی وجوہات پہ روشنی ڈالی –
اس تقریب میں جاوید ہاشمی اور سید فخر امام کی تقاریر میں بھی نمایاں پہلو گیلانی سادات کے مقابلے میں اپنا سیاسی کردار لیکر آنے کی کہانی سے بھرا ہوا تھا-
سید فخر امام نے اپنی تقریر میں ملتان کے ڈپٹی کمشنر پینڈرل مون کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کیسے اُس نے گیلانی خاندان کے فرد کو بلامقابلہ ڈسٹرکٹ بورڈ کا چیئرمین منتخب ہونے سے روکنے کے لیے اپنے کاغذات مقابلے میں جمع کرادیے تھے (وہ یہ بتانا بھول گئے کہ پھر بھی جیتا گیلانی گروپ ہی تھا)
ویسے پنجاب میں زمیندار اشرافیہ کی غالب سیاست کو دیکھا جائے تو انیس سو ستر کے الیکشن تو واقعی بہت بڑا عوامی انقلاب لگتے ہیں جس نے زمیندار اشرافیہ کے بڑے بڑے برج الٹادیے تھے- اور 1974ء میں نواب صادق قریشی کی قیادت میں ضلع ملتان کے سید برادران پی پی پی میں شامل کرلیے گئے تھے- اور 1977ء کے انتخابات میں بھٹو کی پارٹی کے پنجاب کے اکثر دیہی علاقوں سے ٹکٹ ایک بار پھر زیادہ تر زمیندار اشرافیہ کو دیے گئے تھے، اس بار قلفی و پراندے، چائے پاپے بیچنے والوں اور اکثر پیٹی بورژوازی وکیل بابوؤں کی باری نہیں آئی تھی –
جنرل ضیاءالحق نے ضلع ملتان (جو اُس وقت پنجاب کا سب سے بڑا ضلع تھا تحصیلوں کے اعتبار سے جو بعد ازاں ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی میں تبدیل ہوگیا) کی زمیندار اشرافیہ کے گروپوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھایا، اُس نے خانیوال کو ضلع بناتے ہوئے، سید گروپ کی سیاسی طاقت کو ملتان سے الگ کردیا، اس نے گیلانی اور قریشی خاندانوں کو سُکھ کا سانس لینے کا موقعہ فراہم کیا مگر ساتھ ہی پنجاب کی سیادت کے لیے اپنے انتخاب نواز شریف کی تابعداری پہ بھی قریب قریب سب ہی زمیندار اشراف سیاسی خانوادوں کو مجبور کردیا-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر