مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں۔۔۔سارہ شمشاد

اس بات کا کریڈٹ تو پاکستان پیپلزپارٹی کو دینا پڑے گا کہ اس نے پی ڈی ایم کی 11جماعتوں میں سے سب سے زیادہ میچورٹی کا ثبوت دیا اور معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک لے جانے کی بجائے متوازن راستہ اختیار کیا۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلزپارٹی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے اتحادیوں کو منانے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی حکومت کو جمہوری انداز میں گھر بھیجنے کی بات کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی قیادت سے اختلافات کا ذکر کیا ہے جس کے بعد تحریک انصاف کے نونہال خوشی سے نہال ہورہے ہیں کہ پی ڈی ایم میں پھوٹ کا اب پیپلزپارٹی کی قیادت ازخود اعتراف کررہی ہے تاہم جہاں تک حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پی ڈی ایم کی جانب سے لانے کا تعلق ہے تو اس کا اپوزیشن کو پورا پورا حق ہے اور جمہوریت کا حسن بھی یہی ہے کہ سڑکوں پر فیصلے کی بجائے جمہوری طریقہ اختیار کیا جائے۔
تاہم اس بات کا کریڈٹ تو پاکستان پیپلزپارٹی کو دینا پڑے گا کہ اس نے پی ڈی ایم کی 11جماعتوں میں سے سب سے زیادہ میچورٹی کا ثبوت دیا اور معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک لے جانے کی بجائے متوازن راستہ اختیار کیا۔ اگرچہ بلاول بھٹو کی چند تقاریر سخت تھیں لیکن بعد میں انہوں نے حکومت کے خلاف ہتھ ہولا رکھا۔
اب جبکہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف فروری کے آخر میں لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد حکومت کا دھڑن تختہ ہوگا یا نہیں اس بارے ابھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم جمہوری سوچ اور رویوں کو پروان چڑھانا تمام سیاسی جماعتوں کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے مگر 7دہائیاں گزرنے کے باوجود ہماری سیاسی جماعتیں اس بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں اور اب بلاول جو ہماری چائے پر ملاقاتوں سے ان کے جتنے پسینے نکلیں گے اتنا 10جلسوں سے بھی اثر نہیں ہوگا۔
یہ ایک علیحدہ سوال ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے حکومت جائے گی یا نہیں لیکن اس سے اتحادیوں کو اپنی ’’بعض اہم‘‘ شرائط منوانے کا ایک موقع ضرور میسر آجائے گا جس کے بعد وہ کچھ لو اور دو کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ کہا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم وزیراعظم کے ساتھ سپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد لانے کی حکمت عملی پر غور کررہی ہے یہی نہیں بلکہ سینٹ الیکشن کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کو چیئرمین سینٹ بنانے کی بھی تیاریاں ہیں بصورت دیگر سید یوسف رضا گیلانی اس کے سب سے تگڑے امیدوار ابھی تک سمجھے جارہے ہیں۔
آنے والے دنوں میں پاکستانی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے ، کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن سیاسی جماعتوں کو ایک ایکٹیویٹی ضرور میسر آجائے گی کیونکہ سیاسی میدان میں پچھلے کچھ عرصے سے جو تلخی پائی جارہی تھی اس سے جمہوری عمل کے نتیجے میں درجہ حرارت میں کمی آنے کا امکان ہے ۔ سیاستدانوں کی جانب سے جو طرز تکلم ایک دوسرے کو لتاڑنے کے لئے استعمال کیا جارہا تھا اس پر ماتم کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمارے سیاستدان اس سبق کو بھی یکسر بھول چکے ہیں کہ جنگ کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔اب یہ جو شہباز گل بعض اپوزیشن جماعتوں پر انتشار پھیلانے کا مبینہ الزام عائد کررہے ہیں تو کوئی ان سے پوچھے کہ نصف سنچری پر مشتمل کابینہ آخر کس مرض کی دوا ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں اس لئے اس امن کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے سیاستدانوں پر لازم ہے کہ سیاسی افراتفری پھیلانے سے گریز کریں تاکہ ملک دشمن طاقتوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا موقع میسر نہ آسکے۔
ادھر حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے مگر اس کو کیا کہا جائے کہ ’’برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر‘‘ کے مصداق حکومت عوام کو اپنا بخار دینے کے لئے بھی آمادہ نہیں بلکہ اس کے جسم پر موجود آخری ستر تک کھینچنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اسی لئے تو ایک ہفتے میں گھی، کوکنگ آئل، دالوں سمیت 19گھریلو اشیا مہنگی کی گئیں۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کو اس وقت سیاست سیاست کے کھیل میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اب جو اپوزیشن جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید کو براڈ شیٹ کمپنی کا سربراہ بنانے کی مخالفت کررہی ہے تو دوسری طرف حکومت نہیں ہٹائیں گے کی حسب روایت ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔
آنے والے دنوں میں براڈ شیٹ پانامہ ٹو ثابت ہوگا اسی لئے تو اپوزیشن کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہوگئے ہیں، جیسی جذباتی باتیں کرنے کی بجائے حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ عوام پر مزید بوجھ لادنے کی حکمت عملی کو فی الفور خیرباد کہے کیونکہ وزیراعظم اڑھائی برس سے زائد عرصہ اقتدار کے مزے لوٹنے کےبعد اب یہ کہہ کر کسی طور جان نہیں چھڑواسکتے کہ اگر ادائیگی نہ کرتے تو 5ہزار پائونڈ یومیہ سود دینا پڑتا، مزید قرضے سے بچنے کے لئے بجلی مہنگی کی۔ اب کوئی خان صاحب سے پوچھے کہ جناب آپ کا 2لاکھ روپے میں گزارہ نہیں ہوتا تو غریب 12ہزار میں 6لوگوں پر مشتمل کنبے کے ساتھ کیسے مہینہ گزار سکتا ہے۔
خان صاحب کی صاف گوئی کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ عوام کو اب یہی سوچ کر تسلی کرنا پڑے گی کہ سکون صرف قبر میں ہے؟ یعنی حکومت نے انہیں ریلیف فراہم کرنے کی بجائے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں اور اب عوام سکون کے لئے قبر میں جانے کا انتظار کریں کیونکہ اپوزیشن بھی تو اپنے مفادات کی غلام ہے اور اپنے خلاف نیب میں دائر کیسز ختم کروانے کے لئے حکومت کو دبائو میں لانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اب اس چومکھی لڑائی میں عوام کا کیا بنے گا، اس کی کسی کو پروا نہیں اس لئے ’’اے وارثان صبح طرب چیختے رہو۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: