مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک۔۔۔ اشفاق نمیر

قیام پاکستان سے اب تک امریکہ کے پانچ صدور نے پاکستان کا دورہ کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صدور اس وقت پاکستان آۓ جب پاکستان میں کوئی فوجی اقتدار میں تھا

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیام پاکستان سے اب تک امریکہ کے پانچ صدور نے پاکستان کا دورہ کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صدور اس وقت پاکستان آۓ جب پاکستان میں کوئی فوجی اقتدار میں تھا
سات دسمبر 1959 کو امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاور سرکاری طیارے "ائیر فورس ون” میں پہلی بار کراچی میں اترے یہ کسی بھی امریکی صدر کا پہلا پڑاؤ تھا امریکی وزرات خارجہ کے مطابق آئرن پاور کا یہ دورہ پاکستان میں غیر رسمی تھا ان کا ااتقبال جنرل ایوب خان نے کیا اس دورے میں جنرل ایوب خان نے امریکی صدر آئزن ہاور کو کو مکمل یقین دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان سوویت کمیونزم کے خلاف فری ورلڈ خاص کر امریکہ کا قابل انحصار اتحادی ہے انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی کردار کی ضرورت پر بھی زور دیا 23 دسمبر 1967 کو امریکی صدر لنڈن جانسن مشرقی ایشیا کے دورے کے بعد آسٹریلیا اور تھائی لینڈ رکتے ہوۓ واشنگٹن واپس جا رہے تھے تو ان کے طیارے میں تیل ختم ہونے لگا تو ان کو کراچی ائیر پورٹ پر تیل بھروانے کے لیے رکنا پڑا اور وہ صرف ایکہ گھنٹہ کے لیے کراچی ائیر پورٹ پر رکے 23 دسمبر کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر صدر جانسن کا استقبال جنرل ایوب نے کیا تھا 2 اگست 1969 کو تیسرے امریکی صدر رچرڈنکسن جب پاکستان کے دورے پر آۓ تو وہ لاہور میں اترے تھے یہ ایک سٹیٹ وزٹ تھا جس میں دونوں سربراہان مملکت کے درمیان ایک نجی ملاقات ہوئی اس وقت پاکستان میں جنرل یحیی خان اقتدار میں تھے جب 26 مارچ 1969 کو صدر ایوب نے صدارت سے استعفی دے کر جنرل یحیی کو اقتدار منتقل کیا تھا تب وہ دورے پر آۓ تھے کہا جاتا ہے کہ صدر نکسن اور جنرل یحیی کی اس ملاقات سے امریکہ چین تعلق کی بحالی اور 1972 میں نکسن کے دورہ چین کی راہ ہموار ہوئی تھی اور بیس سال کی سرد مہری کے بعد دونوں ملکوں کو قریب لانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا صدر نکسن کے اس عمل کو سفارتی حلقوں میں "نکسنز چائنا گیم” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے صدر نکسن کے بعد اگلے 30 سال تک کسی امریکی صدر نے پاکستان کا دورہ نہ کیا
1999میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کارگل جنگ ہوئی جسے رکوانے کے لیے امریکی صدر بل کلنٹن کو براہ راست مداخلت کرنا پڑی امریک صدر 19 سے 25 مارچ تک انڈیا میں رہے اور 25 مارچ 2000ء کو صرف 6 گھنٹے کے لیے پاکستان آۓ اور اسلام آباد رکے صدر کلنٹن نے صدر رفیق تارڑ او ر چیف ایگزیکٹو جنرل مشرف سے ملاقات کی اور ریڈیو اور ٹی وی پر پاکستانی عوام سے براہ راست خطاب کیا کہتے ہیں کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے جنرل. مشرف کو زبردست معاشی پیکج کی پیش کش کی اگر پاکستان اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دے مارچ 2006 کوامریکی صدر جارج ڈبلیو بش اپنے پیش روؤں کی طرح انڈیا سے ہوتے ہوۓ اسلام آباد پہنچے جنرل مشرف سے اس ملاقات میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور القائدہ کو شکست دینے کے لیے مزید کچھ کرنے کو کہا یہ "ڈو مور” کی کہانی کئی سالوں سے دونوں ملکوں کے درمیان چلتی آ رہی ہے پاکستان ہمیشہ کچھ مزید کر کے امریکہ کے قریب ہونے اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ نظریں پھیر لیتا ہے اور وقت آنے پر پھر "ڈو مور” کا مطالبہ کرتا ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے لمبے عرصے سے دوستی کے باوجود کوئی ایک طویل المدتی معاہدہ نہیں ہوا اس پر فیض صاحب کا شعر ہمیشہ یاد آتا ہے
اک طرز تغافل ہے سو ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

یہ بھی پڑھیں:

چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

طعنہ عورت کو کیوں دیا جاتا ہے۔۔۔ اشفاق نمیر

مائیں دواؤں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔ اشفاق نمیر

بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی جرم۔۔۔ اشفاق نمیر

 

%d bloggers like this: