دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا بھاشانی اور نیپ۔۔۔عامر حسینی

نیپ کو جب پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نہ روک پائی تو 58ء میں پورے ملک میں مارشل لاء لگادیا گیا۔ پہلے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے لگایا اور پھر اسے باقاعدہ فوجی مارشل لاء میں ایوب خان نے بدل ڈالا

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا بھاشانی کی زندگی اور جدوجہد پر کتاب لکھنے کے پروسس میں سب سے زیادہ تاریکی میں ڈوبا جو ان کا کردار بنتا ہے وہ مغربی پاکستان میں نیپ متحدہ کے اور بعد ازاں نیپ- بھاشانی کے مرکزی سربراہ ان کا کردار اور سرگرمیاں ہیں۔ "آزاد پاکستان پارٹی” جس کے سربراہ میاں افتخار الدین تھے متحدہ نیپ میں شامل ہونے والی پنجاب کی ترقی پسند سیاسی جماعت تھی –
اس سیاسی جماعت میں میاں افتخار کے بعد سب سے زیادہ نمایاں شخصیت میاں محمود علی قصوری کی تھی اور مولانا بھاشانی جب مغربی پاکستان لاہور آئے تو میاں افتخار الدین کی رہائش گاہ 21-ایکمن روڈ پر ان کا قیام ہوتا تھا(اب یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ متحدہ نیپ کے زمانے میں کتنی بار لاہور آئے تھے) تو وہ کون سے افراد ہیں جو آج زندہ ہوں اور نیپ متحدہ کے زمانے میں لاہور سے نیپ کی سیاست کے سرگرم کارکن ہوں؟ اس سوال کو جاننے میں یہاں کوئی میری مدد کرسکتا ہے؟

کچھ حقائق نیپ -(متحدہ) کی مغربی پاکستان میں شاندار جمہوری جدوجہد بارے

25 جولائی 1957ء کو روپ محل سینما ہال واقع سردار گیٹ ڈھاکہ میں کل پاکستان ڈیموکریٹک ورکرز کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا اور مغربی پاکستان سے یک صد مندوب گئے تھے- پنجاب سے خاص طور پر لاہور،فیصل آباد، ملتان سے 20 کے قریب مندوب شریک تھے۔ اور اس کانفرنس کی صدارت مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے کی تھی اور اسی کانفرنس میں نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا- مولانا بھاشانی مرکزی صدر اور محمود الحق عثمانی(کراچی) مرکزی سیکرٹری جنرل تھے- مغربی پاکستان کے صدر باچا خان تھے اور میجر اسحاق تھے جن کو پنجاب میں نیپ کو منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ پنجاب میں نیپ کے جو سرکردہ کیڈر تھے ان کا تعلق زیادہ تر سرگودھا، لائل پور، راولپنڈی ، لاہور سے تھا-
اکتوبر 1957ء میں ہی پشاور میں نیپ کی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا اور جون 1958ء میں نیپ کی مرکزی کیمٹی کا اجلاس کراچی میں ہوا۔ 1957ء کے آخری تین مہینے اور 1958ء کے پورے سال کے دوران دوران نیپ کی مرکزی قیادت نے پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور صوبل سرحد کے بڑے شہروں میں بڑے بڑے سیاسی اجتماعات بھی کیے تھے اور راولپنڈی میں لیاقت باغ میں جلسے پر ری پبلکن پارٹی میں شامل جاگیرداروں اور ساہوکاروں کے بھیجے غنڈوں نے حملہ کیا اور ایسا ہی ایک حملہ اوکاڑا میں ہوا تھا جسے ستلج ٹیکسٹائل مل میں کام کرنے والے مزدروں کی جرآت و ہمت نے ناکام بنادیا تھا – اوکاڑا کے کامریڈ عبدالسلام کی قیادت میں مزدوروں کی کوششوں سے نیپ کی قیادت بچ پائی تھی۔
مغربی پاکستان میں نیپ کے باقاعدہ ممبران کی تعداد 80 ہزار بتائی گئی ہے (دیکھیے تھیسز فار پی ایچ ڈی غیر مطبوعہ از حمایت اللہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، ولی خان کی آب بیتی، رسالہ پختون شمارہ جنوری 1958ء مضمون باچا خان)
1958ء میں آل پاکستان کسان ایسوسی ایشن مولانا بھاشانی نے باقاعدہ طور پہ قائم کردی تھی اور مغربی پاکستان میں لاکھوں کسانوں نے مظاہرے کیے جن کا بنیادی مطالبہ بے زمین اور بٹائی پر کاشت کرنے والے مزارعوں کی زمین سے بے دخلی روکے جانا اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ تھا-ملتان ضلع میں 20 ہزار اساتذہ اپنی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئے۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک مغربی پاکستان میں بہت تیز ہوگئی تھی اور نیپ نے مسلم لیگ اور ری پبلکن دونوں پارٹیوں کو مجبور کردیا کہ وہ نیپ کے مطالبات سے ہم آہنگ کریں – نیپ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی بن چکی تھی۔
مغربی پاکستان کے جاگیرداروں ، گماشتہ سرمایہ دار، وردی بے وردی نوکر شاہی اس دوران مغربی پاکستان سے شایع ہونے والے سب ہی بڑے اخبارات میں نیپ کی قیادت کی کردار کشی میں لگی ہوئی تھی- مغربی پاکستان(خاص طور پر پنجاب) سے شایع ہونے والے بڑے اخبارات جیسے نوائے وقت، جنگ ، کوہستان اور تعمیر میں نہ صرف مضامین کی سریز شایع ہوئی بلکہ ان اخبارات کے اداریے بھی شایع ہوئے جن میں نیپ کی قیادت کو ملک دشمن قرار دیا گیا تھا۔
نیپ کو جب پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نہ روک پائی تو 58ء میں پورے ملک میں مارشل لاء لگادیا گیا۔ پہلے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے لگایا اور پھر اسے باقاعدہ فوجی مارشل لاء میں ایوب خان نے بدل ڈالا اور اس طرح سے پاکستان کو جاگیرداری، گماشتہ سرمایا داری سے پاک حقیقی عوامی جمہوریہ ریاست میں بدلنے کی جدوجہد کو روک لگا دی گئی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

About The Author