اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رحیم یار خان کی خبریں

رحیم یار خان سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

رحیم یار خان:

موضع کچہ چوہان کے کاشتکاروں سے محکمہ زراعت کے آفیسران کی میٹنگ ڈیرہ منور

خان مزاری پر منعقد ہوئی مہمان خصوصی سیاسی و سماجی شخصیت سردار محمد کامران خان مزاری

تھے اس موقع پر سردار محمد کامران خان مزاری نے کاشتکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس

طرح کسان گندم گنا اور کپاس کی فصلیں زیادہ کاشت کرتے ہیں اسی طرح سورج مکھی اور سرسوں کی

فصلیں بھی لازمی کاشت کیا کریں تمام کسان حضرات اگر دس ایکڑ گنا بیجتے ہیں یا دس ایکڑ کپاس بیجتے

ہیں تو کسان کو چاہیے کہ ان دس ایکڑ میں سے ایک ایک ایکڑ سورج مکھی اور سرسوں کی فصلوں کی

بیجائی لازمی کیا کریں کیونکہ اس سے نہ صرف کسان کا بلکہ ملکی سطح کا فائدہ ہو سکتا ہے

ہمارے

ملک میں گھی کھل بنولہ وغیرہ پیدا کرنے کے بہت کم مواقع ہیں اگر کاشتکار تمام فصلیں وقت پر اور ہر

طرح کی فصل پیدا کریں تو ہمیں اور عوام کو کافی حد تک فائدہ ہو سکتا ہے ہمارے ملک میں جو عوام کے

لئے باہر سے چیزیں منگوانی پڑتی ہیں وہ ہم خود پیدا کر سکتے ہیں اگر ہمارا کسان خوشحال ہے تو ہمارے

عوام خوشحال ہوں گے اس وقت گھی اور سرسوں کا تیل عوام کو مہنگے داموں میں مل رہا ہے جب گھی

کے لئے سورج مکھی اور سرسوں کے تیل کے لئے ہر کسان فصلیں بوئے گا تو کافی حد تک عوام کو گھی

بھی سستا ملے گا اور سرسوں کا تیل بھی سستا ملے گا تو ہمارے کسان صرف گنا گندم یا کپاس کی فصل

کی طرح سورج مکھی اور سرسوں کی فصلیں وقت پر کاشت کریں اس سے کسان کو آمدنی بھی زیادہ ہو

گی اور عوام کا بھی فائدہ ہو گا ملک کی ترقی کسان نے کرنی ہے جب ہمارا معاشرہ سمجھ داری سے کوئی

بھی کام کرے گا تو فائدہ سب کو ہو گا جب ہمارا کسان محنت نہیں کرے گا تو کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں

کر پائے گا میٹنگ کے اس موقع پر منور خان مزاری ساجد خان مزاری محکمہ زراعت سے فلک شیر تنویر

حسین کھرل شاہ نواز حاجی آختر مزاری کاشتکار حاجی خان مزاری نور دین خان مزاری آظہر علی خان

ملک میوا اسلم بھٹی ملک جانی ملک الطاف اجمل بلوچ عبدالرزاق اور آصف چاچڑ و دیگر کاشتکار شامل

تھے ۔۔۔۔


طنز و مزاح سے بھرپور کالم۔پڑھیے اور خوب انجوائے کیجیےمیرے بچپن کے دن۔۔۔

کتنے اچھے تھے دن
(درد نگر سے) تحسین بخاری press7828@gmail.com
سنڈے کا دن مجھے اپنے گاؤں حویلی غوث شاہ میں میں ہی گزارنا ہوتا ہے،میرا گاؤں رحیم یار خان شہر سے 35کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مغربی جانب ہے،

میرے گھر سے نصف کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ ہے جہاں میں بچپن میں مچھلیاں پکڑا کرتا تھا،سنڈے کے دن ایک تو اپنی برادری کے چھوٹے موٹے معاملات دیکھنے ہوتے ہیں

اس کے علاوہ مختلف برادیوں کے معاملات بھی سنڈے کے دن ہی اپنے ڈیرے پر نمٹانے کی کوشش کرتا ہوں،

اوردوسرااس گاؤں سے اپنا بچپن وابستہ ہے،اسی گاؤں میں جنم لیا،اسی گاؤں کے سکول میں زیر تعلیم رہا،کیسے بھول سکتا ہوں اپنے استاد جام عالم کی طرف سے مارا جانیوالا وہ پر

نصیحت تلھڑ(سوٹی) جب انھوں نے میرے ایک کلاس فیلو افضل بٹوانی سے ایک لفظ کے معنی پوچھے جو انھیں نہیں آتے تھے اور پھر میں نے ان کے کان میں سرگوشی کرکے بتادیا

جو ماسٹر جی کوپتہ چل گیا اور وہ عزت افزائی ہوئی جو عموما کوئی بھی حکومت اپوزیشن کی کیا کرتی ہے،

مرحوم استاد فیاض شاہ بخاری جو رشتے میں میرے پھوپھی زاد بھی تھے ان کا گھر میرے گاؤں سے بیس کلو میٹر دور جمالدین والی میں تھا لہٰذا وہ یہیں پہ رہائش پزیر ہوتے تھے،

جمعرات کو گھر جاتے تھے اور ہفتے کی صبح واپس آ تے تھے،کبھی کبھی وہ ہفتے کے دن لیٹ بھی پنہچتے تھے،

ہفتے کے دن ہم بارگاہ الٰہی میں خوب دعائیں مانگتے کہ اللہ کرے آج استاد جی کو کوئی ضروی کام پڑ جائے،آپ سے کیا چھپانا،کبھی کبھی بیمار ہونے کی دعا بھی کر لیا کرتے تھے،

مگر پتہ نہیں ان دنوں کیوں ایسی دعائیں بہت ہی کم قبول ہوا کرتی تھیں،برف برساتے دسمبر کے مہیینے میں ایک دن جب استاد صاحب ہفتے والے دن دس بجے تک نہ پنہچے تو میں اور میرے کزن گلاب شاہ نے تمام طلبا کو مشورہ دیا کہ

کیونکہ ابھی تک تو استاد صاحب نہیں پنہچے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ آج نہیں آئیں گے اس لیے ہمیں چھٹی کر لینی چاہیے،کیونکہ ہم استاد جی کے قریبی زرائع سے تعلق رکھتے تھے

اس لیے کچھ طلبا مریدا،فضلا،دیگی،کجلا،البیلا،ملازا،واجا،وزیرا،غپیٹا،مٹھو،مکھڑاں جاکاوغیرہ نے ہمارے مشورے کی بھر پور تائید کی اور پھر 8دسمبر کو ہم نے بھاری اکثریت سے ووٹ دلوا کر 14اگست بنا تے ہوئے تعطیل عام کا اعلان فرما دیا

سب طالبعلم چھٹی چھٹی کے نعرے بلند کرتے ہوئے گھروں کو چل دیے ابھی کچھ طالبعلم گھروں کو پنہچے تھے کچھ راستے میں تھے کہ استاد جی دھند کے بادلوں کو چیرتے ہوئے اپنی سائیکل پر نمودار ہوئے،پوچھنے پر پورے سکول کے طلبا شہباز شریف کے وعدہ معاف گواہ کی طرح

بڑھ چڑھ کر بولے(سئیں لیاقت تے گلابو آکھیا ہا جو استاد اج کونا امسے چھٹی کر گھنوں) سر جی لیاقت اور گلاب شاہ نے کہا تھاکہ

استاد آج نہیں آئے گا لہٰذا چھٹی کر لیں،ریمنڈ ڈیوس کے کیس کی طرح فوری ایکشن ھوا۔ انکوئری میں الزام درست پائے گئے

اور پھر قریب کھڑے کھجور کے درخت سے ایک ہری بھری چھڑی کٹوائی گئی اور اللہ بھلا کرے استاد جی کا۔استاد جی نے وہ خدمت کی جو نواز شریف اور زرداری کو بھی آج تک نیب کی طرف سے نصیب نہیں ہوئی،

یقین کریں آج بھی کبھی کبھی اپنی تشریف کھجلانے کو دل کرتا ہے،استاد فدا حسین سانگی کے وہ تڑاخے دار تھپڑ بھی بچپن کی یادوں کا خو بصورت حصہ ہیں جواصغر ماچھی کی سیاہی کی دوات میں گوند ڈالنے پر پڑے تھے۔

استاد اکمل بوہڑ نے نا صرف مرغا بنایا بلکہ اوپر چار عدداینٹیں بھی رکھ دیں،حالانکہ میرا کوئی اتنا جرم بھی نہ تھا بس میں مسلسل تیسری بار بھی چھٹی کرنے کی وجہ نانی اماں کا وفات پا جانا بتا بیٹھا تھا،کیا استاد تھے،

صرف سبق یاد نہ کرنے پر ہی سزا نہیں ملتی تھی بلکہ گھر میں ماں کی بات نہ مانو توہمارا استقبال استاد صاحب کی گرگابی کرتی تھی،چاچے ماجے بھٹی کے ٹنڈے چوری کرو تو پیشی استاد جی کی عدالت میں،اس دور کے اکلوتے چلتے پھرتے جنرل سٹور کے مالک چاچا قادرو کیہل کی صندوق نما دکان سے جیب والا چھوٹا شیشہ میں نے چرایا اور فرید شاہ کی جیب میں چپکے سے ڈال دیا

اور کہا ”چاچا قادرو اے چھوکرا تیڈا شیشہ گودے وچ لکائی کھڑے“لو جی تلاشی کرنے پر رانا ثنا اللہ سے برآمد ہونے والی منشیات کی طرح شیشہ موقع پر ہی برآمد ہوگیااور پھر اگلے دن چاچا قادرو ماسٹر جی کے پاس شکائت لیکر آ گئے

ماسٹر جی نے اپنی توفیق کے مطابق فرید شاہ کی خوب خاطر مدارت کی اور میں معصوم بن کر ترچھی آنکھ سے دیکھتا رہا ۔کیا زمانہ تھا یار، چھٹی والے دن بھی ہمیں اپنے آزاد کاموں میں آزادی نہ تھی،ذہن میں استاد جی کا خوف ایسے سوار رہتا تھا

جیسے کشمیریوں کوانڈین آرمی کا،ایک دفعہ چھٹی والے دن اپنے گاؤں کی اکلوتی کچی سڑک پر مٹی کا سپیڈ بریکر بنایا اور نیچے کانٹے دبا دیے،

مجھے اپنے اس کامیاب سانئنسی تجربے کا پتہ اگلے دن چلا جب چاچاملک مالھو اچانک سکول میں نمودار ہوا اور استاد جی سے کہا (پاڑ پٹیجے تیڈے شگردیں دی میڈی نویں ٹوپ دا خانہ خراب کر رکھیے نے،پیر پلو شاہ دی دکان کنوں ہنڑ بارھاں روپے دی ٹوپ پوا تے امدا پیاں)،

میں نے سوچا کہ میرے اس کامیاب سائنسی تجربے پر استاد جی مجھے شاباش دیں گے اورمیرے ہم جماعت عابد عرف مٹھو بھٹی کے گھر سے تازہ تازہ بھجوائی جانے والی لسی کا ایک گلاس مجھے بھی بطور نقد انعام پیش کریں گے،

استاد جی نے مجھے اپنی طرف بلایا اور کہا اوئے فرید شاہ وہ کل جو میں نے سوٹی تجھے دی تھی وہ کہاں ہے وہ تو زرا لاؤ اب بھلا وہی فرید شاہ سوٹی لانے میں کیوں دیر کرتا جو میری وجہ سے قادرو کیہل کے چرائے گئے شیشے کے الزام میں اپنی تشریف لال کروا چکا تھا،

لو جی ڈنڈا آگیااورپھر نہ پوچھیں کہ کیا ہوا،میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ ملکی خزانہ لوٹنے والوں کو صرف ایک دن کیلیے میرے اسی دور کے کسی ایک استاد جی کے حوالے کر دیا جائے توامید ہے پانچواں ڈنڈا لگنے سے پہلے پہلے تمام رقم بر آمد ہو چکی ہوگی۔

صفدر علی بٹوانی کی چرائی گئی سلیٹی کی وجہ سے پڑنے والا زناٹے دار تھپڑ اب بھی یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو،درد اب تک نہیں بھولا،

چاچے نواز شاہ کی دکان کی پلالی اتنی مزیدار ہوتی تھی کہ کھانے کیلیے ہمیں مامے یار شاہ کی کپاس چوری چننی پڑجاتی تھی،

اب اس کپاس چوری میں بھلا ہمارا کیا قصور، نا چاچا نواز شاہ اتنی اچھی پلالی بناتا نہ ہم کھانے کیلیے مجبور ہوتے تو قصور تو پھر چاچے نواز شاہ کا ہوا نا ۔

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس چوری میں قصور ہمارا ہے تو آپ بھلے یہ کیس لاہور ہائی کورٹ میں لے جائیں پتہ چل جائے گا۔

%d bloggers like this: