مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں ایک بار سالگرہ پر تائی امی نے مجھے جگ سا پزل کا تحفہ دیا۔ مجھے پزل جوڑنا نہیں آتا تھا۔ انجم باجی نے مجھے بٹھاکر پزل کے ٹکڑے جوڑنے سکھائے اور میں نے تھوڑی کوشش سے وہ تصویر مکمل کرلی۔ انجم باجی نے بہت شاباشی دی۔
انجم باجی میری تایا زاد بہن تھیں۔ مجھ سے دس بارہ سال بڑی ہوں گی۔
ان کا اصل نام مباہلہ تھا اور وہ تایا کی چوتھی بیٹی تھیں۔ مباہلہ اہل تشیع کی ایک عید کا نام ہے۔ اس سے تایا کے بارے میں اندازہ لگائیں جنھوں نے چوتھی بیٹی کی ولادت کو عید قرار دیا۔
تایا کی چھ بیٹیاں ہوئیں۔ سب کالج گئیں، پانچ نے ایم اے کیا۔ سب کا گورا رنگ۔ سب خوبصورت۔ لیکن انجم باجی خوبصورت ترین تھیں۔ میرے ذہن میں ان کی خانیوال والی شبیہہ ہے۔ دبلی پتلی، نرم و نازک۔ سب بہنیں بولنے کی شوقین لیکن وہ کم گو۔ کبھی کبھی سنائی دینے والی لیکن شیریں آواز۔
تایا کا گھرانہ اور ہم ایک دو سال کے فرق سے کراچی منتقل ہوئے۔ جلد انجم باجی کی شادی ہوگئی۔ وہ سعودی عرب چلی گئیں جہاں ان کے شوہر بینک میں ملازم تھے۔
گزشتہ پینتیس سال میں میری ان سے ایک دو ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ یونہی اتفاقاً کسی تقریب میں۔ کسی کی شادی میں یا کسی کی موت میں۔
پھر وہ کراچی واپس آگئیں۔ نیا گھر بنوایا۔ بچوں کی شادیاں کیں۔ لیکن میں پتا نہیں کہاں پھنسا ہوا تھا۔ کسی کے لیے کیا، اپنے لیے بھی وقت نہیں تھا۔ بھاگ دوڑ کرتے کرتے وقت تھما تو میں امریکا میں تھا۔
دو ہفتے پہلے خاندان کے واٹس ایپ گروپ سے خبر ملی کہ انجم باجی کی طبیعت خراب ہے۔ معلوم ہوا کہ کرونا وائرس لاحق ہوگیا ہے۔ اسپتال پہنچیں۔ آئی سی یو میں داخل ہوئیں۔ وینٹی لیٹر پر گئیں۔ دو دن پہلے انتقال ہوگیا۔
دل غم سے بوجھل اور دماغ سن ہے۔
یہ تقریباً طے تھا کہ میری ان سے مزید کوئی ملاقات نہیں ہونی تھی۔ پتا نہیں کبھی پاکستان جاسکوں گا یا نہیں۔ میں عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا ہوں جہاں پچھلی پیڑھی سے ایک دو بزرگوں کے سوا کوئی نہیں بچا۔ امی بابا بھی نہیں رہے۔ کئی کزن اور دوست بھی رخصت ہوگئے۔
صحافیوں میں قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے، بری خبروں کے عادی ہوجاتے ہیں لیکن چند ماہ پہلے ماموں زاد بہن ہما باجی اور اب انجم باجی کے انتقال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
پتا ہے کیا، ہماری زندگی بھی جگ سا پزل جیسی ہوتی ہے۔ تصویر ہماری ہوتی ہے لیکن اس کے ٹکڑے ہمارے والدین، بہن بھائی، کزن، دوست اور وہ پیارے ہوتے ہیں جو دل کے قریب ہوں۔
جگر کے ٹکڑے بچھڑتے جاتے ہیں، پزل کے ٹکڑے کھوتے جاتے ہیں۔
انجم باجی کے جانے سے میری کہانی کا ایک اور ٹکڑا گم ہوگیا۔ میری ادھوری تصویر میں ایک اور رنگ کم ہوگیا۔ رونے کے لیے ایک اور غم ہوگیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر