محمد رضا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ روز سے دماغ میں کچھڑی سی پک رہی ہے، سوچ انتہائی منتشر ہے، گھر سے نکل کر آفس آتے جاتے یا فیملی کے ساتھ کہیں سے بھی گزرتے ہوئے اگر کسی وردی والے پر نظر پڑ جائے تو جسم میں سنسنی سی دوڑ جاتی ہے، دور سے دیکھ کر ہی خیال آتا ہے کہ یہ ابھی روکے گا، انتہائی تحکمانہ انداز میں سوالات کرے گا، ایسی نظروں سے دیکھے گا جیسے ہمارے والدین نے ہمیں اس کے ہاتھوں فروخت کردیا ہو اور اب ہم اس کے غلام ہوں، آنکھوں سے ہمارا پوسٹ مارٹم کرے گا تو ہاتھوں کی خارش مٹانے کیلئے دو چار چپیڑیں یا پھر پستول کا استعمال بھی کرلے گا، کیونکہ اس نے کونسا کسی کو حساب دینا ہے۔۔
مجھے یاد ہے، جب 80 کی دہائی میں جب بہت چھوٹا تھا، تیسری چوتھی کلاس میں، اس وقت جمہوریت اور آمریت کے فرق اور رموز سے بھی ناواقف تھا اس وقت کسی وردی والے فوجی کو دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوتا تھا، ایسا ہی کچھ پولیس کو دیکھ کر بھی تھا، لیکن وقت گزرتا گیا اور یہ تحفظ خوف کے احساس میں بدلتا چلا گیا۔۔
یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا یہ طویل کہانی ہے، مختصراً صرف اتنا کہ کراچی میں ریاستی پالیسی کے طور پر ماورائے عدالت قتل ہوتے دیکھے، محافظوں کو قبضے کرتے دیکھا، ضرورت سے زیادہ اختیارات ملیں تو بندا ویسے ہی خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے، ایسا ہی کچھ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہوا، پھر رہی سہی کسر سیاسی، لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تفریق نے پوری کردی۔۔
یہ سب جائز نہیں، لیکن بفرض محال ایک لمحے کیلئے مان بھی لیں کہ کوئی سیاسی، لسانی، علاقائی یا فرقہ وارانہ بنیاد پر دشمنی رکھ سکتا ہے اور اس بنیاد پر کسی کی جان لینا جائز سمجھتا ہے اور وہ درست ہے تب بھی بات ختم نہیں ہوتی، کیونکہ اب بات اس سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔۔
کراچی میں نقیب اللہ محسود کا ماورائے عدالت قتل اس کی زندہ مثال ہے، ایسا ملک جہاں تین بار وزیراعظم رہنے والے چار سے زیادہ بار جیل جاچکا ہو وہاں ایک سب انسپکٹر جو ریاستی اداروں کی ایما پر آؤٹ آف ٹرن پروموشن کے ذریعہ ایس ایس پی کے عہدے تک پہنچا وہ 450 سے زائد ماورائے عدالت قتل کرکے بھی چار منٹ کیلئے جیل نہیں گیا۔۔
ایسا ہی کچھ ماڈل ٹاون لاہور میں ہوا، نہتی خواتین اور بچوں کو سڑک پر گولیاں مارنے والے پولیس اہلکاروں کو بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ انہیں کیوں قتل کررہے ہیں، اور پھر ان میں سے کسی ایک،،، جی ہاں کسی ایک پولیس اہلکار کو بھی سزا نہیں ہوئی۔۔
پھر سانحہ ساہیوال ایک زندہ مثال ہے، جہاں سڑک پر پولیس نے میاں بیوی، ان کی 13 سالہ بیٹی اور ڈرائیور کو دہشت گرد کہہ کے گولیاں ماردیں، تین ننھے معصوم بچوں کو نجانے کیوں چھوڑ دیا، اس واقعہ کے بعد پولیس کی جانب سے بیانات آئے کہ آپریشن انٹیلی جنس بنیادوں پر کیا گیا، مکمل معلومات کے بعد ہی اس کار کا پیچھا کیا گیا، اس میں دہشتگرد یا ان کے سہولت کار تھے، لیکن ایسا کسی بھی فورم پر ثابت نہیں ہوا، وہ غریب اپنی جان سے گئے، تین معصوم بچے دنیا کے رحم وکرم پر آگئے، اور دن دیہاڑے قتل کرنے والے پولیس والوں کو تاحال کوئی سزا نہیں ہوئی۔۔
اور پھر اسلام آباد میں اسامہ ستی کا واقعہ ہوگیا، جو رات ڈیڑھ بجے اپنے یونیورسٹی سے آئے کے دوست کو واپس چھوڑنے گیا، اور جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا، 22 سالہ یہ نوجوان اپنی تعلیم کے ساتھ والد کا ہاتھ بٹانے کیلئے پارٹ ٹائم اپنی گاڑی کو بطور ٹیکسی بھی چلاتا تھا، اس بارے میں جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ایک دو روز پہلے اسامہ کی پولیس والوں سے تلخ کلامی ہوئی تھی جس کا بدلہ پولیس والوں نے گھات لگا کرلیا، لیکن ایسی کیا تلخ کلامی تھی جس کا اتنا اندوہناک بدلہ لیا گیا؟
خبروں کے مطابق پولیس نے اسامہ ستی کی گاڑی کو روکا، چاروں طرف سے اس کی گاڑی پر فائرنگ کی، ریسکیو ایمبولینس کو جان بوجھ کر غلط پتہ بتایا گیا تاکہ وہ بروقت نا پہنچ سکے، زخمی اسامہ ستی کو گاڑی سے نکال کر فٹ پاتھ پر ڈال دیا، اس کا خون نکلتا رہا، وہ تڑپتا رہا اور زیادہ نہیں،،، سارا خون بہہ جانے کے باعث زندگی کی بازی ہار گیا۔۔ وردی میں ملبوس محافظوں کی جانب سے اتنی نفرت کا مظاہرہ،، آخر کیوں؟؟؟
چلیں مان لیتے ہیں ایک دو روز پہلے پولیس والوں سے اسامہ ستی کی تلخ کلامی ہوئی ہوگی، وہ دن کا وقت ہوگا، لوگ دیکھ رہے ہونگے، اسامہ نے بدتمیزی بھی کردی ہوگی، ایک آدھ گالی بھی دے دی ہوگی کیونکہ ہمارے معاشرے میں گفتگو کے دوران یا غصہ میں گالی دینا بھی فیشن جیسا ہی ہے، لیکن اس کا انتقام اتنا شدید؟ آپ ایک گالی کے جواب میں دو گالیاں دے دیتے، اپنی بھڑاس نکال لیتے، دو تھپڑ لگا دیتے، گو کہ قانون اس کی بھی اجازت نہیں دیتا لیکن پھر بھی۔۔ اپنا غصہ کم کرنے کیلئے کچھ ہلکا پھلکا اقدام کرکے مطمئین ہوجاتے۔۔
یہ بھی پڑھیے:
سیاست کے پاکیزہ چہرے۔۔۔محمد رضا
جمہوریت تماشا بن گئی۔۔۔رضاعلی عابدی
اگر مطیع اللہ جان رہا نہ ہوتے؟۔۔۔ رضازیدی
آپ نے ایک ماں کی گود اجاڑ دی؟ پھر یہ ثابت کرنے میں جُت گئے کہ اسامہ منشیات فروش تھا، اس نے گاڑی سے فائرنگ کی، چار چار ابتدائی رپورٹس بناڈالیں، کچھ خدا کا خوف ہے کہ نہیں۔۔
میں نے جان بوجھ کر اس میں پولیس کے کچھ رپورٹ ہونے والے جرائم لکھے ہیں، ایف سی، رینجرز، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ہونے والی زیادتیوں پر نہیں لکھا، تاکہ تحریر قابل اشاعت رہے۔۔ میرا سوال فقط اتنا ہے کہ اگر محافظ ہی قاتل ہوجائیں تو عوام کس سے امان مانگیں؟
محمد رضا جیونیوز اسلام آباد میں اسائنمنٹ ایڈیٹر ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر