غازی امان اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں اصل موضوع کی طرف آتاہوں۔ حکومتِ پاکستان ہر سال 14 اگست یومِ آزادی کے موقعہ پر ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کے لۓ ایوارڈ دیتی ہے۔ علاقائی ادیبوں اور شاعروں کے نام صوبائی حکومتیں ارسال کرتی ہیں ،ایسا ہی ایک اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں ، میں اپنے ضلع کے ادیبوں کی فہرست کے ساتھ شامل ہوا ۔ عطاءالحق قاسمی نے حکومتِ پنجاب کی طرف سے اجلاس کی صدارت کی۔ دیگر سینئر آفیسر ز بھی تھے۔ میری باری آئی تو میں نے اپنے ضلع کی فہرست میں شامل ادیبوں کا تعارف اور ان کی ادبی خدمات کے بارے میں بتایا۔ میں نے جب جناب جمشید کمتر کا ذکر کیا تو عطاء الحق قاسمی نہایت طنزیہ انداز میں بولے کہ ُ کمتر کا یہاں کیا کام ،
اس تکبر اور رعونت کو انسان کیا کہے ، ہزار بار استغفار۔
پھر وہ وقت بھی تاریخ نے دیکھا کہ ثاقب نثار کی عدالت نے دہرا دہرا کر عطاء الحق قاسمی کی نام نہاد عظمت اور جعلی ادبی حیثیت کا دامن تار تار کر دیا۔
حضرت صالح علیہ السلام کی قومِ ثمود صرف ایک شخص کی متکبرانہ روش کی وجہ سے عذاب کا شکار ہوئ۔ افسوس کہ ہمارے معاشرے اور سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ذاتی اور وقتی مفادات کے لۓ عطاء الحق قاسمی جیسے لال بجھکڑ پال رکھے ہیں جنکی کم ظرفی اور ناقص شخصیت کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب کسی استحقاق کے بغیر ان کو کسی بڑے عہدے پر بٹھا دیا جاتا ہے
بےدلی ہاۓ تماشا ! کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہاۓ تمنّا ! کہ نہ دنیا ہے نہ دین (غالب )
اس سارے پس منظر اور المناک رُوداد کے بعد کُچلے ہوۓ طبقات کے نمائندہ سرائیکی شاعر جناب جمشید کمتر صاحب کو سُنیں اور پڑھیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر