ساٹھ کی دہائی میں جس طرح پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہر نوع کے انقلابی اور نظریاتی افکار پنپ رہے تھے‘ اسی طرح کابل بھی اس کا مرکز تھا۔ زیادہ تر جدید تعلیمی ادارے وہاں قائم ہوئے‘ جہاں افغانستان کے کونے کونے سے آ کر طلبا داخل ہوتے‘
رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان ایک متحد‘ پُرامن‘ مستحکم اور مغربی دنیا کیلئے پُرکشش سیاحتی ملک تھا۔ خارجہ امور میں بھی توازن رکھا۔ امریکہ اور سوویت یونین‘ دونوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے؛ اگرچہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ دونوں جانب سے تعلیم‘ صحت‘ زراعت اور مواصلات کے علاوہ ریاست اور معاشرے کی صلاحیتیں بڑھانے کیلئے فرخدلی سے امداد ملتی تھی۔ یہ کہنا مشکل ہو گا کہ بادشاہی دور میں کسی ایک طرف جھکائو زیادہ تھا۔ افغانستان کمزور ریاست تھا۔ اپنے وسائل پر انحصار کرکے آگے چلنے کی سکت محدود تھی۔ ظاہر شاہ زیرک‘ تجربہ کار اور مشفق طبیعت کے روایتی حکمران تھے۔ آہستہ رفتار رکھ کر‘ معاشرے کو خاموشی سے ترقی کی راہ پر ڈالنے کی طرف گامزن تھے۔ وہ قبائلی معاشرے کی روایات و ثقافت اور اس کے سماجی نظام کی حساسیت کا ادراک رکھتے تھے۔ انہیں اپنے ملک کی جغرافیائی محدودات کا بھی خوب اندازہ تھا۔ پاکستان کے ساتھ وہ بہترین تعلقات کے خواہاں تھے۔ بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ انہوں نے افغانستان کو علاقائی اور عالمی کشمکش سے محفوظ رکھا۔ ایسے روایتی معاشروں میں ترقی‘ امن اور استحکام کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ افغانستان میں سیاسی اصلاحات کے بارے میں ان کی سوچ ترقی پسندانہ تھی۔ انیس سو چونسٹھ میں آئین بنا‘ انتخابات ہوئے اور پارلیمان پہلی مرتبہ وجود میں آئی۔ پانچ سال مکمل ہوئے تو دوسرے انتخابات بھی کرا ڈالے۔ افغان پارلیمان میں ہر نوع کے سیاسی گروہ اور نظریاتی فکر کے نمائندے موجود تھے۔ حقیقت میں پارلیمان وسیع افغان معاشرے کا عکس تھی۔
کابل ہو یا افغانستان کا کوئی اور شہر یا چھوٹا قصبہ‘ سب مغرب‘ مشرق اور علاقائی ممالک کے سیاحوں سے بھرے رہتے تھے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سیاحوں میں غالب اکثریت ہپیوں کی ہوتی تھی۔ میرے نزدیک یہ تاثر درست نہیں۔ ہم جامعہ پنجاب میں طالب علم تھے تو میری کلاس اور شعبہ سیاسیات کے طلبا کابل کی سیروتفریح کیلئے گئے تھے۔ غالباً یہ انیس سو ستر کا سال تھا۔ سب حیران تھے کہ کابل کتنا جدید شہر ہے‘ صاف ستھرا‘ کھانے پینے کی بہترین جگہیں‘ اور وہاں کے شہری سیاحوں کیلئے چشم براہ۔ افغانوں کے بارے میں عمومی تاثر دنیا میں ایک باوقار قوم اور کھلے دل و دماغ کے لوگوں کا تھا۔ آج بھی وہاں جانیوالے دوست موازنہ کرتے ہوئے بلا جھجک کہتے ہیں کہ کابل میں گھٹن نہ تھی‘ وہ پابندیاں جو ہم اپنے بازاروں اور گلی کوچوں میں دیکھتے ہیں‘ وہاں نہ تھیں۔ اس میں مبالغہ آمیزی ہو سکتی ہے مگر جو بات میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں‘ یہ ہے کہ گوروں اور گوریوں کے علاوہ بھارتی‘ پاکستانی‘ جاپانی‘ ایرانی اور عربی سیاحت کیلئے افغانستان کو دلچسپ ملک خیال کرتے تھے۔ وقت تو کبھی رکا ہے‘ نہ رکے گا؛ تاہم اگر رفتار فطری ہو تو سماجی طوفانوں کے خطرات کم کئے جا سکتے ہیں۔
لگتا ہے افغانستان کو اپنی ہی نظر لگ گئی‘ یا اس کا محلِ وقوع خصوصاً سوویت یونین کے غیر مقلد اشتراکیوں کی نظر میں آ گیا۔ انیسویں صدی میں بھی ان کی للچائی نظریں مرکزی ایشیا کی ترک ریاستوں کو ہضم کرنے کے بعد افغانستان پر لگی رہیں۔ برطانیہ کی افغانستان کے ساتھ دو جنگوں کا مقصد ہی اس ملک کو روس کے قریب پھٹکنے سے باز رکھنا تھا۔ ڈر تھا کہ اگر روسی ریچھ نے افغانستان پر پنجے گاڑ دیئے تو وہاں ٹھکانہ بنا کر ہندوستان کی انگریزی سلطنت کو نشانہ بنائے گا۔ ان جنگوں میں جو اس کا حال ہوا‘ وہ عبرت ناک ہے‘ مگر افغانستان کو اپنے قریب رکھنے اور روس کو دور کرنے کیلئے انگریز حکومت نے دو جانب سے ریلوے افغانستان کی سرحدوں تک تعمیر کر ڈالی۔ افغانستان نے اپنی خارجہ پالیسی پر انگریز حکومت کے تسلط کو ختم کر دیا تھا۔ ایک معاہدہ راولپنڈی میں ہوا‘ جس کے مطابق افغانستان کے داخلہ اور خارجہ اقتدار کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔ نوجوان‘ ترقی پسند اور روشن خیال امیر امان اللہ خان نے نہ صرف اپنے ملک کو صحیح معنوں میں آزاد کرایا بلکہ ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا تھا۔ افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جدید ریاست کے خدوخال ابھرنا شروع ہوئے۔ سماجی میدان میں رفتار تیز کی تو وہی ہوا‘ جس کا خدشہ ایسے معاشروں میں ہوا کرتا ہے۔ قدامت پسندوں کی جانب سے شدید رد عمل ظاہر ہوا۔ مُلا سب سے آگے تھے۔ اتنا انتشار پھیلا کہ پہلی مرتبہ ایک تاجک حبیب اللہ کابل کے تخت پر قبضہ جما بیٹھا۔ امان اللہ خان کو مہلت ملتی تو ہم مختلف افغانستان دیکھتے۔ انکے ہی خاندان کے ایک کرشماتی رہنما نادر خان نے وزیرستان سے ایک لشکر جمع کیا اور کابل جا کر حبیب اللہ کو ٹھکانے لگا دیا۔ اگلی تقریباً نصف صدی افغانستان میں استحکام رہا اور ترقی ایسی ہوئی کہ مثال نہیں ملتی۔ یہ ظاہر شاہ کا زمانہ تھا۔
ساٹھ کی دہائی میں جس طرح پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہر نوع کے انقلابی اور نظریاتی افکار پنپ رہے تھے‘ اسی طرح کابل بھی اس کا مرکز تھا۔ زیادہ تر جدید تعلیمی ادارے وہاں قائم ہوئے‘ جہاں افغانستان کے کونے کونے سے آ کر طلبا داخل ہوتے‘ اور اکثر وہیں کے ہی ہو رہتے۔ اشتراکی طلبا تنظیمیں قائم ہوئیں تو ان کے مقابلے میں اسلامی بھی آ گئیں۔ وہی نعرے بازی‘ رنگ برنگے جھنڈے اور نظریاتی مباحث جو ہماری جامعات کی پہچان تھے‘ انہوں نے کابل میں بھی رنگ جمائے۔ اس زمانے کا یونیورسٹی کا طالب علم نہ پاکستان کے نظام سے خوش تھا‘ نہ ہی افغانستان کے‘ بلکہ تیسری دنیا کے سب ممالک میں ‘انقلاب صرف انقلاب‘ کے نعرے گونجتے۔ کیسے ہو گا‘ کون لائے گا اور کب انقلاب آئے گا؟ اس کا کوئی معقول جواب کسی کے پاس نہ تھا؛ تاہم جونہی تعلیم سے فارغ ہوتے اور عملی زندگی میں قدم رکھتے‘ انقلاب کا بخار اتر جاتا‘ مگر ایسے بھی دیکھے ہیں‘ جن کی زندگیوں کو تخیلاتی انقلاب نگل گیا۔ افغانستان میں زیادہ تر علمی مباحث تھے۔ حالات اس وقت بگڑے جب انیس سو تہتر میں سردار دائود‘ جو ظاہر شاہ کے چچا زاد بھائی تھے‘ نے ملک پر ایسے وقت پہ قبضہ کر لیا‘ جب بادشاہ اٹلی میں اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیاں منا رہے تھے۔ اعلانیہ کی حد تک افغانستان ایک ری پبلک بن گیا‘ مگر سردار دائود نے شخصی حکومت قائم کر لی۔ سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ پنگے بازی کی‘ دھمکیاں اور نہ جانے کیا کچھ۔ ہاں یاد آیا‘ جب بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو اکھاڑ پھینکا تو سرحد کی حکومت نے بھی اقتدار چھوڑ دیا تھا۔ عسکری مزاحمت شروع ہوئی تو ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اور پشتون قومیت پرستوں نے افغانستان میں پناہ لی اور وہاں بیٹھ کر پاکستان میں اپنی جنگیں لڑتے رہے۔
بات کچھ آگے نکل گئی‘ سردار دائود کو جن پر سہارا تھا‘ ان کے وہ اتنے قریب چلے گئے کہ واپسی ممکن نہ ہو سکی۔ اشتراکی ظاہراً سردار دائود کے حلیف تھے‘ مگر اصل اقتدار انکے خفیہ ہاتھوں میں تھا۔ وہ وقت بھی آیا کہ خود کو محصور دیکھ کر 1978 کے ابتدائی مہینوں میں ایران کے شاہ اور ہماری مدد کے حصول کی درخواست کرنے لگے۔ سوویت یونین کھلم کھلا اشتراکی دھڑوں کو یکجا کرکے ان کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ سردار دائود نے نکلنے کی ہلکی سی کوشش کی تو انہیں اور ان کے خاندان کے سب افراد کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا گیا۔ آگے اشتراکی قیادت کو رکھا‘ اور جو انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا‘ وہ بھی افغانستان کی المناک داستان کا حصہ ہے۔ ظاہر شاہ کا وژن درست تھا۔ فطری رفتار سے ملک چلیں تو بعد میں رفتار بھی بڑھ جاتی ہے‘ اور تبدیلی کے اثرات بھی سماج جذب کر لیتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ ایک دفعہ ریاست کے ادارے اور ڈھانچہ تباہ کر دئیے جائیں تو دوبارہ ہم آہنگی سے تعمیر کرنا کسی کے بس کی بات نہیں رہتی۔ ہمارے لئے افغانستان کی تباہی میں کئی سبق مضمر ہیں‘ جن سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بھی کہ اس کی آگ کے شعلوں نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر