دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

واہ جو پیار کیتوئی ،رول ڈتوئی وچ روہی ۔۔۔گلزار احمد

۔ رپورٹ بتاتی ھے کہ 75 فیصد امریکیوں کا خیال ھے سخت محنت کر کے دولت مند بن سکتے ہیں لیکن 62 فیصد امریکی اچھی تعلیم کو دولتمندی کا سبب بتاتے ہیں ۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واہ جو پیار کتوئی ۔رول ڈتوئی ۔۔وچ روہی
واہ ہو سجن تیڈے وعدے ۔۔۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی 40 فیصد دولت صرف ایک فیصد امیر ترین امریکیوں کے پاس ھے بڑی حیرت ھوئی ایک دنیا کی سب سے بڑی جمھوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والا ملک دولت کی تقسیم میں اتنا بے انصاف ھے ۔ خیر پہلے اس رپورٹ کے کچھ حصے دیکھ لیتے ہیں اور تجزیہ کرتے ہیں کہ امریکہ میں دولت مند کیسے بنا جا سکتا ھے ۔
ہمارے ملک میں تو آسان طریقہ ھے رشوت۔کرپشن۔سیاست۔بیوروکریسی ۔وغیرہ ۔ رپورٹ بتاتی ھے کہ 75 فیصد امریکیوں کا خیال ھے سخت محنت کر کے دولت مند بن سکتے ہیں لیکن 62 فیصد امریکی اچھی تعلیم کو دولتمندی کا سبب بتاتے ہیں ۔
صرف 20 % امریکیوں کا خیال ھے دولت مند گھرانے میں پیدا ھونے سے کامیابی ملتی ھے۔ اصل میں دیکھا جاۓ تو دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں امریکی معاشرے میں دولت کی نا مساویانہ تقسیم بھت زیادہ ھے اور آپ کا سماجی مرتبہ بڑی مشکل سے آگے بڑھتا ھے۔اگر آپ امریکہ بھت زیادہ دولت کمانا چاھتے ہیں تو پھر آپ کو مالیاتی اداروں میں اچھی نوکری تلاش کرنا ھو گی۔
مگر مشکل یہ ھے کہ مالیاتی ادارے آپ کو اس وقت بھرتی کرتے ہیں جب آپ نے Ivy League یونیورسٹیوں سے گریجوایشن کر رکھی ھو۔ اب عیوی لیگ کیا ھے یہ آپ کو بعد میں بتاتے ہیں ۔ بس یہ وہ یونیورسٹیاں ہیں جھاں امیروں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔
دوسرا امیر بننے کا آسان طریقہ یہ ھے کہ آپ کسی امیر ترین بندے سے شادی کر لیں تو آپ کی لاٹری نکل آتی ھے۔عام طور پر امریکی جوان لڑکیاں کسی امیر رنڈوے کی تلاش میں ہوتی ہیں ۔ اور بوڑھا امیر رنڈوا بھی خوبصورت جوان لڑکی سے شادی کرنے میں بھت خوش ھوتا ھے اس طرح اگر وہ زندہ رہتا ھے تو ایک لاکھ کا اگر مر جاۓ تو سوا لاکھ کا۔ بس لڑکی راتوں رات امیر بن جاتی ھے ۔ عیوی لیگ کیا چیز ھے جہاں صرف امیر ترین امریکی پڑھتے ہیں اور دو فیصد عوام بھی داخلہ نہیں لے سکتے ۔
Ivy League
دراصل ان آٹھ یونیورسٹیوں کو کہتے ہیں جو تعلیمی معیار میں سب سے بلند۔۔۔ داخلے کے قوائید بڑے سخت اور امیر لوگوں کی جنت ہیں ۔ ان یونیورسٹیوں کو جو عطیات ملتے ہیں اور ان کے جو انڈومنٹ فنڈ کی رقم ھے وہ جب آپ سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔
یونیورسٹیوں کے نام ہیں ۔۔ براون یونیورسٹی۔۔کولمبیا یونیورسٹی ۔۔کورنیل یونیورسٹی۔۔ ڈارٹ ماوتھ کالج ۔۔۔ہارورڈ یونیورسٹی۔۔۔یونیورسٹی آف پینسلوانیا۔۔۔۔پرنسٹن یونیورسٹی اور ییل یونیورسٹی۔
یہ آٹھ یونیورسٹیاں 126.56 بلین اپنے پاس رکھتی ہیں جو ہمارے ملک کے سالانہ بجٹ سے کئی گنا زیادہ ھے۔ پھر میری سوچ یکدم اپنے پیارے ملک پاکستان چلی گئی تو پتہ چلا یار ھو تو یہاں بھی وہی رہا ھے جو امریکہ میں ۔ دولت کے مالک چند خاندان ہیں۔
ہمیں نام تو اسلامی دیا جاتا ھے مگر لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کافروں سے بھی بدتر ۔ امریکہ میں پھر بھی بے روزگاری الاونس ملتا ھے مگر ہمارے حکمران تو نوکریاں چھین لیتے ہیں ۔ادھر ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں تو بڑی بڑی تعلیمی درسگاہیں امیروں کے بچوں کے لئیے بنی ہیں اور وہی حکومت کر رھے ہوتے ہیں۔ ایچیسن کالج لاھور کے پڑھے ھوۓ ہی ہمارےوزراء اعظم۔۔وزراء اور اسمبلیوں کے ممبر بنتے ہیں ۔ امیروں کے سکول پورے ملک میں علیحدہ ۔۔
غریب کا بچہ جتنا مرضی لائق ھو وہ بڑا آدمی بن ہی نہیں سکتا ۔ ہم نے امیروں کے سکولوں کالجوں میں نہ یونین نہ سیاسی سرگرمی دیکھی سارا زور شور غریبوں کے کالجوں پر ھوتا ھے۔لڑائی ۔مار کٹائی۔فائرنگ۔قتل وغارت۔ نشہ آور ادویات۔ ملاوٹ شدہ کھانے۔ کمترین معیار تعلیم ہماری قسمت ھے۔
ہمارے حکمران یا لڑتے ہیں یا بانٹ کے ملک کو کھاتے ہیں۔ ہماری اسمبلیاں جاگیرداروں اور دولت مندوں سے بھری ہوئی ہیں ۔ جو قانون سازی ھوتی ھے وہ امیروں۔صنعتکاروں کے مفاد میں کی جاتی ھے۔غریبوں کو خالی خولی نعروں سے ٹرخا دیا جاتا ھے ہماری جھالت کی انتہا یہ ھے کہ ہم ان لیڈروں کی خاطر آپس میں لڑتے رھتے ہیں ۔ غلام محمد قاصر ہماری دھرتی کا بہت بڑا شاعر تھا اس کی غزل کے دو شعر ہماری حالت کی ترجمانی کرتے ہیں۔۔۔؎
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے۔۔۔۔۔ گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے۔۔۔۔ سرد ہواٶوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے۔۔۔۔۔ لُو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے۔۔۔۔
اب آپ نے فیصلہ کرنا ھے کہ گرم لُو کے تھپیڑے سہنے ہیں یا نسیم سحر کے مزے لوٹنے ہیں ۔۔۔اگر آپ زندگی کو گلزار بنانا چاھتے ہیں تو آیئے عھد کریں کہ ہم ہر قسم کہ گروہ بندی۔فرقہ واریت۔ سیاسی اختلافات کو ختم کر کے اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کریں گے اور ملکی تعلیمی اداروں کو بین الاقوامی معیار کا بنا کے دم لیں گے۔۔۔

About The Author